اساتذہ کا احتجاج 19 ویں روز بھی جاری مگر سندھ حکومت غافل
ہیڈماسٹرز نے کل سندھ اسمبلی کے باہر فیمیل ہیڈٹیچرز کی تذلیل اور اُن پر تشدد کے خلاف نعرے بازی کی اور کہا کہ توہین عدالت کی غلطی پر معافی ممکن ہے مگر توہین استاد کے گناہ پر معافی مشکل ہے۔
پاکستان میں سندھ اسمبلی کے باہر اساتذہ کا احتجاج آج 19 ویں روز بعد بھی جاری ہے۔ ہیڈ ماسٹرز 3 دن سے ریگیولراز کرنے کے لیے سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا ہوا ہے۔
ہیڈ ماسٹرز نے کئی بار وزیر اعلی ہاؤس سندھ تک مارچ کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس اور ہیڈ ماسٹرز میں تلخ کلامی ہوئی۔ احتجاج کے دوران ہیڈ ایک ماسٹر نے بار بار خود سوزی کی کوشش کی لیکن پولیس نے خود سوزی کی کوشش کرنے والے ملازمین کو روکا اور حراست میں لے لیا۔
ہیڈماسٹرز کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی عدالتی حکم نامہ موجود نہیں ہے جس میں ہیڈماسٹرز کو نوکریوں سے نکالنے کا حکم دیا گیا ہو۔ اُنہوں نے چیف جسٹس سندھ سے درخواست کی ہے کہ وہ وزیر تعلیم سندھ سعید غنی کے بیان پر نوٹس لیں۔
یہ بھی پڑھیے
سندھ میں مزید 5 نئے اضلاع اور 7 تحصیلیں بنانے کی تیاریاں
ہیڈماسٹرز نے انکشاف کیا کے جس عدالتی مقدمے کا حوالہ وزیر تعلیم سندھ نے دیا ہے اس مقدمے میں سندھ ہائی کورٹ کراچی بینچ نے چیف سیکرٹری سندھ کو یہ حکم دیا تھا آئی بی اے سکھر کی معرفت سے بھرتی کئے جانے والے ہیڈ ماسٹرز اور ہیڈ مسٹریسز کی اسکروٹنی کر کہ اس کی رپورٹ سندھ ہائی کورٹ کراچی میں جمع کروائی جائے۔ مگر خود چیف سیکرٹری سندھ اپنی رپورٹ میں عدالت کو گمراہ کر چکے ہیں جس کی سزا 957 خاندان بھگت رہے ہیں۔
ہیڈماسٹرز کا کہنا ہے ’ہمیں 4 سال بعد ملازمتوں سے برطرف کرکے اپنے من پسند لوگوں کو سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی کرنے کے لئے ہماری ملازمتوں پر نیا اشتہار جاری کیا گیا اور ہمارے معاملے کو عدالتی رنگ دیا جارہا ہے۔‘
ہیڈماسٹرز کا مزید کہنا تھا کہ 957 لوگوں کو بیگناہ نوکریوں سے فارغ کرکہ بیروزگار کرنا ایک سنجیدہ عوامی معاملہ ہے جوکہ وزیر تعلیم محترم سعید غنی کو حل کرنا چاہیے۔
ہیڈماسٹرز نے کل سندھ اسمبلی کے باہر فیمیل ہیڈٹیچرز کی تذلیل اور اُن پر تشدد کے خلاف نعرے بازی کی اور کہا کہ توہین عدالت کی غلطی پر معافی ممکن ہے مگر توہین استاد کے گناہ پر معافی مشکل ہے۔