آئی پی پیز کے واجبات کا 40 فیصد حصہ ادا کرنے کی منظوری

ان باقی ماندہ آئی پی پیز  کے واجبات کی ازسرنو تصدیق کے لیے  نیب بھی ان کے حسابات کا جائزہ لے رہا ہے۔

وفاقی حکومت اور نجی بجلی گھروں یا آئی پی پیز کے درمیان واجبات کا طویل تنازعہ کسی حد تک حل ہوگیا ہے اور حکومت نے نجی بجلی گھروں کے ایک تھائی واجبات فوری ادا کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

آئی پی پیز اور حکومت پاکستان کے درمیان واجبات سے متعلق معاملات اگست میں  2020 میں طے پا گئے تھے اور اس سلسلے  نومبر  2020 میں معاہدے پر بھی اتفاق ہوگیا تھا۔ لیکن چند آئی پی پیز کے ساتھ واجبات کی رقم پر کچھ اختلافات کی وجہ سے معاملہ تاخیر کا شکار ہوا۔

حکومت نے اس سلسلے میں جو معاہدے کیا تھا اس کے مطابق  حکومت آئی پی پیز کو  29 مارچ تک  92 ارب روپے ادا نہیں کرسکی اور آئی پی پیز کی جانب سے کلیم کی ازسرنو تصدیق کے لیے تمام ریکارڈ نیب کے حوالے کردیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

حکومت کا تیل سے چلنے والی آئی پی پیز کو خریدنے کا ارادہ

آرڈیننس انکم ٹیکس
Xinhua

معاہدے کی شق نمبر 5 کے مطابق اگر حکومت مقررہ وقت کے اندر ادائیگی نہ کر پائے تو آئی پی پیز اس تاریخ سے کم ٹیریف کو معطل کرسکتی ہے تاہم اس ادائیگی میں ڈیفالٹ کو اگر 70 دن کے اندر درست نہیں گیا گیا تو آئی پی پیز 7دن کا نوٹس دے کر معاہدہ ختم کرسکتی تھیں۔

حکومت کی کوشش تھی  کہ پبلک فنڈ کے استعمال میں شفافیت کو مکمل طور پر برقرار رکھا جائے اور اس ضمن میں کسی بھی ادائیگی سے پہلے تمام قانونی تقاضے پورے کئے جارئیں۔

یہی بات ان واجبات کی ادائیگی میں تاخیر کا سبب بنی۔ حکومت اس سے پہلے 1994 اور 2006 کی پاور پالیسی کے تحت 47 میں سے 35 نجی بجلی گھروں کے واجبات کا 40 فیصد حصہ کیش ادا کرے گی۔ جبکہ 30 فیصد سکوک بانڈز اور 30 فیصد حصہ ٹی بلز کی شکل  میں ادا کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ 12 ایسی آئی پی پیز جن کے واجبات  2002 کی توانائی  پالیسی کے تحت  ہیں اور ان  میں فریقین یعنی حکومت اور نجی بجلی گھروں کا حتمی رقم پر اتفاق نہیں ہے وہ باقی رہ جائیں گے۔

ان باقی ماندہ آئی پی پیز  کے واجبات کی ازسرنو تصدیق کے لیے  نیب بھی ان کے حسابات کا جائزہ لے رہا ہے۔ اس سلسلے میں مارچ کے وسط میں آئی پی پیز کی ادائیگیوں کا مکمل  ریکارڈ نیب کے حوالے کردیا گیا تھا  اور جب تک نیب سے تمام ادائیگیوں کی کلیم کی تصدیق نہیں ہوجاتی اس سلسلے میں رقوم جاری نہیں ہوں گی۔

متعلقہ تحاریر