پاکستان میں ہزاروں برس قدیم زندہ عجوبہ

صنوبر کے درختوں کی قدامت کے سبب انہیں زندہ رکاز یا لیونگ فوسلز بھی کہا جاتا ہے۔صنوبر کے یہ جنگلات دنیا میں اپنی نوعیت کے دوسرے بڑے جنگلات ہیں۔

ماحولیات پر تحقیق کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ اگر آپ نے 30 سے 35 میٹر اونچا درخت دیکھا ہے تو جان لیں کہ آپ وہ خوش قسمت ہیں جن کے سامنے دنیا کا قدیم ترین جاندار موجود ہے۔ ان درختوں میں ہزاروں برس کی ماحولیاتی تاریخ محفوظ ہے۔

صنوبر کے ایک درخت کو اگانا ہو تو خاص آب وہوا اور بلندی تو درکار ہوگی ہی مگر 🌲 درخت کو تناور بنانے میں کئی نسلیں اور صدیاں گزر جائیں گی مگر سیکڑوں برس میں اگنے والے ان انمول درختوں کو محض چولہے کا ایندھن بنانے کے لیے ایک دن میں کاٹ دیا جاتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا۔

سربرآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں

آفتاب ایک الاؤ کی طرح روشن ہے

پاکستان میں نایاب جنگل کی موجودگی

ماہرین ما حولیات کا کہنا ہے کہ دنیا میں یہ سب سے طویل عمر پانے والے جاندار درخت ہیں اور ان میں صنوبر یا جونیپر کے جنگلات ہزاروں برس کی عمر پاتے ہیں۔ایسا ہی نایاب اور عجوبہ جنگل پاکستان میں موجود ہے جو صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے کچھ ہی دور واقع زیارت کے مقام موجود ہے۔ کوئٹہ سے 120 کلومیٹر دور وادی زیارت میں دنیا کے قدیم ترین جنگلات ہیں۔ ان جنگلات کی عمر4 سے 5 ہزار ہے جبکہ بعض ماہرین کے دعوے کے مطابق ان جنگلات کی عمر 7 ہزار برس تک ہوسکتی ہے۔

پاکستان میں زندہ رکاز

صنوبر کے درختوں کی اسی قدامت کے سبب انہیں زندہ رکاز یا لیونگ فوسلز بھی کہا جاتا ہے۔صنوبر کے یہ جنگلات دنیا میں اپنی نوعیت کے دوسرے بڑے جنگلات ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

اٹلی میں ایک ڈالر کا گھر خریدیں

سو برس میں محض چند انچ بڑھتا ہے

یہ درخت ایک برس میں محض چند سینٹی میٹر اور 100 برس میں محض چند انچ بڑھتاہے۔ اسے سب سے سست رفتار بڑھنے والا جاندار بھی کہا جاسکتا ہے۔

صنوبر جنگلات عالمی ورثہ

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے زیارت کے صنوبر کے جنگلات کو حیاتیاتی ذخیرہ یا عالمی ماحولیاتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ جس سے ان جنگلات کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ ایک لاکھ 10 ہزار ہیکٹر پر پھیلے یہ جنگلات اپنی منفرد خوشبو سے سب کو اپنی موجودگی کا پتہ دیتے ہیں اورصرف علاقے کی خوبصورتی میں ہی اضافے کا سبب نہیں کرتے بلکہ مارخور، بھیڑیے، ریچھ، لومڑی، گیدڑ اور نقل مکانی کرکے آنےوالے 36 نایاب پرندوں کا مسکن بھی ہیں۔

صنوبر کی سرخ چھال

صنوبر کا درخت طویل القامت ہوتا ہے اس کی چھال سرخی مائل ہوتی ہے جو پرتوں کی صورت اترتی ہے۔ اس کی لکڑی اور چھال خوشبودار ہوتی ہے جو باآسانی آگ پکڑ لیتی ہے۔ اس کے درخت کی جڑیں دور دور تک زمین میں پیوست ہوتی ہیں۔پتے سبز لمبے نوکدار ہوتے ہیں اور پھل مٹر کے دانے کے برابر گچھوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ جس پر نرم کانٹے نما ابھار ہوتے ہیں۔ یہ پھل پہلے ہلکا سبز اور بعد میں گہرے سبزرنگ کا ہوجاتا ہے۔

صنوبرکے اگنے کے لئے خاص ماحول اور آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ خشک اور سرد آب و ہوا والے علاقے کا درخت ہے۔ جہاں کی سطح سمندر سے بلندی 2 ہزار سے 3 ہزار میٹر تک بلند ہو۔ محققین کا کہنا ہے کہ اگر آپ نے 30 سے 35 میٹر اونچا پیڑ دیکھا تو جان لیں کہ آپ دنیا کے قدیم ترین جاندار کے روبرو ہیں۔

ہزاروں برس کی ماحولیاتی تاریخ

ان درختوں میں ہزاروں برس کی ماحولیاتی تاریخ محفوظ ہے۔ اسے کرہ ارض کی حیاتیاتی تاریخ کے ارتقائی سفر کا قدیم ترین اور زندہ مسافر سمجھا جاتا ہے۔ اسے نباتات کی تاریخ میں قدیم ترین ماحولیاتی نظام کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا میں صنوبر کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔ تاہم پاکستان میں اس کی 6 اقسام ہیں اور زیارت میں پائی جانے والے جنگلات کو صنوبر کی سب سے بہترین قسم سمجھا جاتا ہے۔ جسے ”جونیپرس ایکسیلاپولی کارپس‘‘ کہا جاتا ہے۔

صنوبر لائف ٹائم تجربہ

یہ قدیم جنگلات ملکی اور غیر ملکی سیاحت کے فروغ کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان جنگلات کو دیکھنا لائف ٹائم تجربہ ہے۔

بانی پاکستان کاصنوبر کی وادی میں قیام

 بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے صنوبر کے جنگلات سے آراستہ وادی زیارت کی ریزیڈنسی میں زندگی کے آخری ایام گزارے۔ یہ شمالی امریکا ،شمالی افر یقہ اور وسط ایشیاء میں بھی پائے جاتے ہیں ۔دنیا میں صنوبر کاسب سے بڑا جنگل تاجکستان میں ہے۔

اردو ادب اور صنوبر

اردو میں معشوق کے قد کو صنوبر سے تشبیہ دی جاتی ہے اور اردو ادب میں صنوبر کا جابجا تزکرہ ہے۔

مرزا غالب نے کہا تھا

سایہ کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر

تو اس قد دل کش سے جو گلزار میں آوے

 

علامہ اقبال بانگ درا میں کہتے ہیں

صنوبر باغ ميں آزاد بھی ہے، پا بہ گل بھی ہے

انھی پابنديوں ميں حاصل آزادی کو تو کر لے

 

ابن انشا یوں سخن طراز ہیں

سن صنوبر کی کہانی، اے ددا جی، بڑھ گیا

ان نگوڑے حبشیوں، بھتنوں، سیاہوں کا دماغ

 

احمد فراز نے کہا تھا کہ

قامت کو تیرے سرو صنوبر نہیں کہا

جیسا بھی تو تھا اس سے تو بڑھ کر نہیں کہا

صنوبر اور ایکو سسٹم

جب برف پگھلتی ہے تو صنوبر کے درختوں کا سایہ پانی کے بخارات میں تبدیل ہونے کی رفتار کو بڑھنے نہیں دیتا۔ یوں زیر زمین پانی کی ری چارج  کےساتھ پینے کے پانی، زراعت اور دیگر استعمال کے لیے پانی دستیاب ہوتاہے۔ صنوبر کے درخت زمین کو ہواکے کٹاو سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔

ماہرین جنگلات کے مطابق صنوبر کے بیج کی نمو پزیری بہت کم ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ صرف 5 سے 10 فیصد بیج ہی بچ پاتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت، قحط سالی، بارش اور برف باری میں بے قاعدگی نے جنگل کو جہاں نقصان پہنچایا ہے وہاں یہ  موسمیاتی تبدیلی کے مطالعے کا بھی بہترین وسیلہ ہوسکتے ہیں۔ تحقیق کی جاسکتی ہے کہ ان کی طویل عمری کا راز کیا ہے؟ جسے دیگر اقسام کی درختوں پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے۔

نایاب جنگلات خطرے میں

مقامی افراد کھیتی باڑی کے لئے بھی جنگل کاٹ رہے ہیں اور انھوں نے صنوبر کے درخت کاٹ کر پھلوں کے باغ بھی لگائے ہیں۔ جس کی وجہ سے جنگلات کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور منفرد عالمی ماحولیاتی ورثہ تباہ ہو رہا ہے۔

جنگلات کے تحفظ کا قانون

جنگلات کے تحفظ کےقانون بلوچستان فارسٹ ریگولیشن 1890 میں درخت کاٹنے کی سزا 6 ماہ تک قید اور محض چند ہزار روپے جرمانہ ہے جسے موجودہ حالات کے مطابق بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ان جنگلات کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔کیونکہ یہ صرف اہلیانِ زیارت یا پاکستانیوں کا ہی نہیں بلکہ ساری انسانیت کا ورثہ ہے۔ جس کی حفاظت سب پر لازم ہے۔

متعلقہ تحاریر