امریکی بلاگر سنتھیا رچی نے رحمان ملک کو کیوں معاف کردیا؟

امریکی بلاگر سنتھیا رچی نے بظاہر سابق وزیرداخلہ رحمٰن ملک کو ریپ کرنے پرمعاف کردیا ہے اور اپنا مقدمہ واپس لے لیا ہے۔ لیکن کیوں اور کیسے کردیا؟ اس سوال پر خاتون نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

پاکستان کے سابق وزیرداخلہ رحمان ملک اورامریکی بلاگر سنتھیا ڈی رچی کے درمیان معاملات طے پاگئے ہیں اور سنتھیا رچی نے رحمٰن ملک پر دائر کیا جانے والا زنا بالجبر یا ریپ کا مقدمہ واپس لے لیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی خاتون اپنے ساتھ ہونے والے ریپ کو کیسے معاف کرسکتی ہے؟

کہا جاتا ہے کہ خواتین ہی ایک دوسرے کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہیں۔ یہ بات اس تناظر میں بھی دیکھی جاسکتی ہے جب کوئی خاتون ریپ کا جھوٹا ہنگامہ کرتی ہے تو دیگرمظلوم خواتین کو بھی انصاف ملنے کی امید دم توڑ جاتی ہے۔

امریکی بلاگر سنتھیا رچی نے بظاہر سابق وزیرداخلہ رحمٰن ملک کو ریپ کرنے پرمعاف کردیا ہے اور اپنا مقدمہ واپس لے لیا ہے۔ لیکن کیوں اور کیسے کردیا؟ اس سوال پر خاتون نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ دونوں نے معاملات طے پا جانے کے بعد ایک دوسرے کے خلاف کیسز بھی واپس لے لیے۔

گزشتہ برس جب یہ بات منظر عام پر آئی تو کسی کے گمان میں نہ تھا کہ معاملہ اس قدر آسانی سے سلجھ جائے گا۔ یہاں ایک اہم سوال یہ بنتا ہے کہ آخر ایک امریکی خاتون اپنے ساتھ ہونے والے جنسی حملے کے واقعے کو کیسے فراموش کرسکتی ہے؟ کیسے اس شخص کو معاف کرسکتی ہے جس نے نہ صرف اس کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہو؟ بلکہ اس کی نفسیات پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہوں۔

ایسا یقیناً پاکستان جیسے معاشرے میں کئی بار ہوتا آیا ہے کہ خواتین پر معاشرتی دباؤ ڈالا جاتا ہے اور اُنہیں ایسے واقعات پر خاموش کرادیا جاتا ہے یا پھر قسمت کا لکھا کہہ کر صبر کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔  لیکن سنتھیا کے معاملے یہ بات بالکل اُلٹ ہے۔ وہ نا صرف ایک ترقی یافتہ اور انتہائی با اثر ملک کی شہری ہیں بلکہ وہ پاکستانی اشرافیہ میں خاصی مقبول ہیں۔

سنتھیا رچی پر کسی قسم کا دباؤ ڈالا جاسکتا ہے یہ بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔ اور خاص طور پر رحمٰن ملک ایسے وقت میں دباؤ ڈالنے کے قابل نہیں ہیں جب اُن کی اپنی جماعت نا حکومت میں ہو اور نا ہی اپوزیشن میں مرکزی جماعت ہو۔ پھرجس طرح سنتھیا رچی نے سرعام اپنے ریپ کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد معاملے کو بہادری سے عدالت لے کر گئی تھیں اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن پر دباؤ ڈالنا آسان کام نہیں۔

اس حوالے سے نیوز 360 کی ٹیم نے کلینیکل سائیکالوجسٹ منتہٰی ضیاء سے خصوصی گفتگو کی۔

منتہٰی ضیاء کے مطابق ریپ کا شکار خواتین کا ہمارے معاشرے میں سراٹھا کرزندگی گزارنا ناممکنات میں شامل ہے کیونکہ ایسی خواتین کے ساتھ معاشرے میں بہت برا سلوک کیا جاتا ہے۔ انہیں ایسا محسوس کرایا جاتا ہے جیسے وہ معاشرے کا حصہ ہی نہ ہوں۔ اس قسم کے رویے سے خواتین کی شخصیت اور خوداعتمادی ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ ایسی مظلوم خواتین اپنی شناخت تک دوسروں سے چھپاتی ہیں۔

ماہرنفسیات کے اس بیان کی روشنی میں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ جو خاتون ریپ جیسے حادثے سے گزر کر معاشرے کی سختیاں برداشت کررہی ہو وہ کیسے سوشل میڈیا پر ویڈیو ڈال کراپنے ریپ کی کہانی سنا سکتی ہے؟

ہمارے معاشرے میں عام طور پر کمزوراور غریب خواتین کے لیے ایسی صورتحال پیدا کردی جاتی ہے جس میں ان کا اپنے مجرم کو معاف کردینا مجبوری بن جاتا ہے۔ اسی لیے اس قسم کی معافی کی توقع کسی ایسی خاتون سے تو کی جاسکتی ہے جس کا تعلق پسماندہ علاقے سے ہو یا غربت کے باعث اثرورسوخ رکھنے والوں کے سامنے سراٹھانے کی طاقت نہ رکھتی ہو۔ لیکن سنتھیا رچی جیسی بااثر خاتون جو سوشل میڈیا پر بھی ایک بڑی فین فالوونگ رکھتی ہو اس کا اپنے مجرم کو اس قدر آسانی سے معاف کردینا اچھنبے کی بات ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پنجاب بھر میں 1300 سے زیادہ بچوں پر جنسی تشدد

بلاگر سنتھیا رچی ایک امریکی شہری ہیں جو پاکستان میں گزشتہ 10 سالوں سے قیام پذیرہیں۔ جون 2020 میں سنتھیا رچی نے رحمان ملک پر ریپ جیسا سنگین الزام لگایا۔ سنتھیا نے اپنے فيس بک پيچ پر براہ راست نشر کردہ ویڈیو میں رحمان ملک کے بارے میں کہا کہ انہوں نے 2011 میں جنسی ہراسگی کا نشانہ بنایا اور یہ واقعہ رحمان ملک کی رہائش گاہ پر پیش آیا۔

براہ راست سیشن کے بعد انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی پیغامات میں دعویٰ کیا کہ ان پر جنسی تشدد کیا گیا۔ سنتھیا رچی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ وہ سمجھی تھیں کہ منسٹرز انکلیو میں وزیر داخلہ کے گھر ہونے والی ملاقات ان کے ویزے سے متعلق ہے لیکن انہیں پھول اور نشہ آور مشروب دیا گیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت سنتھیا رچی کے ٹوئٹر پر فالوورز کی تعداد 2 لاکھ 20 ہزارسے زائد تھی۔ اسی لیے اس دعوے کے بعد وہ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ کرنے لگیں۔ سنتھایا کے بیان پر غور کیا جائے تو یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ انہیں اچانک 2011 کا سانحہ 2020 میں کیوں یاد آیا؟ کیا اس معاملے میں کوئی صداقت تھی بھی یا نہیں؟

اگر سنتھیا رچی کے تمام الزامات جھوٹے تھے تو اس سے ان مظلوم خواتین کے کیسز پر بہت برا اثر پڑے گا جو اپنے مجرم کو سزا دلوانے کے لیے عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہیں۔

اس قسم کے معافیاں جنسی تشدد کا شکار خواتین کی سچائی پر بھی سوالیہ نشان بناد یتی ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو مستقبل میں ایسی مظلوم خواتین کو انصاف ملنا تو درکنار ان کی بات بھی سننا کوئی گوارا نہیں کرے گا۔

متعلقہ تحاریر