ڈاکو نے ڈاکو کو تاوان ادا کر کے خاتون کو بازیاب کرالیا
سابق ایس ایس پی شکارپور کی رپورٹ کے مطابق 50 سے زیادہ پولیس افسران اور اہلکار کچے کے ڈکیتوں کے لیے مخبری کرتے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع کشمور میں ایک منفرد واقعہ پیش آیا ہے جہاں ایک ڈاکو نے دوسرے ڈاکو کو تاوان ادا کر کے خاتون کو بازیاب کرالیا ہے۔
صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ کے ضلع کندھ کوٹ اور ضلع کشمور کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے مختلف گروہوں نے اپنے لیے محفوظ پناہ گاہیں بنارکھی ہیں۔ ان میں منیر مصرانی گینگ، جھنگل تیغانی اور جنید جاگیرانی سمیت مختلف چھوٹے بڑے گینگ شامل ہیں۔ یہ گینگ کافی عرصے سے پولیس کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
کشمور کے کچے کے علاقے میں ایک تازہ واقعہ پیش آیا ہے جہاں ایک ڈکیت گینگ نے ایک خاتون کو تاوان کے لیے اغواء کیا تھا جس پر ورثاء نے پولیس سے مدد کی اپیل کی تھی۔ پولیس کی جانب سے مختلف کارروائیاں بھی عمل میں لائی گئیں لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
پولیس کی طرف سے مایوس ہونے کے بعد خاتون کے ورثاء کسی طرح سے ڈاکو جھنگل تیغانی کے پاس پہنچے اور تاوان کے عوض خاتون کی بازیابی کی درخواست کی۔
یہ بھی پڑھیے
شفقت محمود کے امتحانات کے اعلان پر طلباء کا احتجاج
جھنگل تیغانی نے خاتون کو 50 ہزار کے عوض بازیاب کروالیا ہے۔ گینگ کے سرغنہ نے بازیاب خاتون کے سر پر چادر ڈال کر کہا کہ ’ہمارا ضمیر کبھی ہمیں عورت کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔‘
واضح رہے کہ جھنگل تیغانی وہی ڈکیت ہے جس نے سندھ کے مشہور لوک فنکار کو ان کے بیٹوں سمیت اغواء کرلیا تھا جبکہ شہید ڈی ایس پی راؤ شفیع اللہ کے قتل کی ایف آئی آر بھی جھنگل تیغانی کے خلاف درج ہے۔
کچھ عرصہ قبل سابق ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان نے ایک رپورٹ مرتب کی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ کچے کے علاقوں میں موجود ڈکیت گروہوں کے لیے 50 سے زائد پولیس افسران اور اہلکار مخبری کا کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر رضوان نے موجودہ ایم پی اے امتیاز شیخ کو بھی ڈکیتوں کی سرپرستی کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
سابق ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ’پولیس اہلکاروں کی مخبریوں کی وجہ سے کچے کے علاقے میں کیے جانے والے آپریشنز میں ہمیشہ پولیس کو بھاری مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔‘
یہ رپورٹ اس وقت کے ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر جمیل اور آئی جی سندھ کو ارسال کی گئی تھی جس کے بعد سندھ حکومت نے ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان کا تبادلہ کردیا تھا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق اس وقت ضلع کشمور اور ضلع کندھ کوٹ میں چند گینگ (جو مشکل سے 20 سے 25 لوگوں کی ٹولیوں پر مشتمل ہیں) 4 اضلاع کی پولیس کے لیے بہت بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
ایس ایس پی کشمور امجد شیخ کی سربراہی میں سندھ کے 4 اضلاع گھوٹکی، کندھ کوٹ، کشمور، شکارپور اور سکھر شہر کے تقریباً 12 ہزار پولیس اہلکار پر مشتمل ٹیم 125 سے 150 ڈکیتوں کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے کے لیے کارروائیاں کر رہی ہے مگر تاحال کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
پولیس حکام کے مطابق ایس ایس پی عرفان سموں کو ڈکیتوں کی جانب سے اکثر سوشل میڈیا پر پیغام موصول ہوتے رہتے ہیں جن میں پولیس افسران کو کھلا چیلنج کیا جاتا ہے۔