کراچی کا دودھ مافیا عوام کو یومیہ 13 کروڑ کا چونا لگانے لگا
مسابقتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق دودھ کی قیمتیں ڈیری فارمرز ایسوسی ایشنز کا مبینہ کارٹیل مقرر کرتا ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں دودھ مافیا شہر کے عوام کو یومیہ 13 کروڑ روپے اور سالانہ 47 ارب روپے کا چونا لگانے لگا ہے۔ مسابقتی کمیشن کی رپورٹ میں کئی انکشافات سامنے آئے ہیں۔ شہر قائد میں دودھ کی سپلائی چین 3 مراحل پر مشتمل ہے جس میں ڈیری فارمرز، ہول سیلرز اور ریٹیلرز شامل ہیں۔
کہتے ہیں کہ دنیا میں سونے کے بعد سب سے بڑا کاروبار خام تیل کا ہے اور اسے کاروباری زبان میں بلیک گولڈ کا کاروبار کہتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ اس کاروبار میں کمائی کی کوئی حد نہیں ہے۔ پاکستان میں خام تیل کی کوئی لابی ہو یا نہ ہو لیکن یہ واضح ہے کہ یہاں خاص طور پر کراچی میں دودھ کا کاروبار مافیا بن گیا ہے۔ شہر قائد میں دودھ فروشوں کے سازباز اور گٹھ جوڑ کا نیٹ ورک انتہائی منظم ہے اور یہ اپنے مفادات کے لیے لمحوں میں متفقہ فیصلے کرلیتے ہیں۔ مسابقتی کمیشن نے اس سلسلے میں ہوشربا انکوائری رپورٹ جاری کردی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
بجٹ میں میک اپ پر ٹیکس بڑھنے سے خواتین مایوس
مسابقتی کمیشن کی انکوائری رپورٹ کیا ہے؟
مسابقتی کمیشن نے ڈیری سیکٹر میں ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کی مبینہ کارٹیلائزیشن اور مقابلے بازی کی سرگرمیوں کے حوالے سے تحقیقات مکمل کرلیں ہیں۔ انکوائری رپورٹ میں ٹھوس شواہد کی بنیاد پر یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ کراچی کی تین بڑی ڈیری ایسوسی ایشنز بادی النظر کارٹیلائزیشن اور قیمتوں کے تعین میں ملوث ہیں۔ دودھ مافیا کے اس گٹھ جوڑ کی وجہ سے عوام کا استحصال جاری ہے۔
ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن (ڈی ایف اے) کی مبینہ گٹھ جوڑ سے دودھ کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ایک مشہور کنزیومر ایسوسی ایشن نے مسابقتی کمیشن کو خط لکھا تھا۔ جس کے بعد میڈیا کی رپورٹس کی روشنی میں انکوائری شروع کی گئی تھی۔
خط میں کہا گیا تھا کہ ڈی ایف اے کراچی کے صدر نے شہر میں دودھ کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا تھا اور دودھ اب کمشنر کراچی کی جانب سے مقرر کردہ 94 روپے کے مقابلے میں 120 روپے فی لیٹر میں فروخت ہورہا ہے۔
مسابقتی کمیشن نے ان الزامات کی جانچ پڑتال کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس کے مطابق دودھ کی سپلائی چین تین مراحل پر مشتمل ہے جس میں ڈیری فارمرز، ہول سیلرز اور ریٹیلرز شامل ہیں۔ ریٹیلرز کو دودھ سالانہ ’باندھی‘ کے نام سے معاہدے کے ذریعے فروخت کیا جاتا ہے جس میں دودھ کی خریداری کے لیے شرح اور مقدار کو مختلف ایسوسی ایشنز مقرر کرتے ہیں۔
انکوائری کمیٹی کے مطابق کمشنر کراچی ڈویژن دودھ سپلائی چین کے تمام مراحل پر قیمتوں کا تعین کرتے ہیں۔ اس طرح کا آخری نوٹیفکیشن 14 مارچ 2018 کو جاری کیا گیا تھا جس میں ڈیری فارمرز کے لیے 85 روپے فی لیٹر، ہول سیلرز کے لیے 88.75 روپے، اور ریٹیلرز کے لیے 94 روپے فی لیٹر قیمت مقرر کی گئی تھی۔
ادارہ برائے شماریات کے ڈیٹا سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دودھ کی سپلائی چین میں شامل مختلف ڈیری فارمر ایسوسی ایشنز کے کردار کی وجہ سے مقرر کی گئی قیمتوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا ہے۔
دودھ فروش مافیا کا گٹھ جوڑ کیسے ثابت ہوا؟
فروری 2021 میں ایک انفارمر نے مسابقتی کمیشن کے سامنے کچھ ویڈیوز اور تصاویر بطور ثبوت پیش کی تھیں۔ کراچی میں خالص دودھ کی قیمتوں کو طے کرنے میں ملوث ’کارٹیل‘ کے وجود سمیت دیگر ثبوت شیئر کیے گئے تھے۔ مبینہ کارٹیل ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کراچی، ڈیری فارمر ایسوسی ایشن کراچی اور مِلک ریٹیلر ایسوسی ایشن کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔
ریٹیلرز اور ڈیری فارمز کے نمائندوں کے بیانات کے مطابق ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کراچی، ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کراچی اور آل کراچی فریش مِلک ہول سیلرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے نمائندے فارم گیٹ پرائس، ہول سیل پرائس اور ریٹیل پرائس کو بھی طے کرتے ہیں۔ اگر کوئی ریٹیلر ’باندھی‘ کے مقررہ کردہ نرخ پر دودھ خریدنے سے انکار کرتا ہے تو ایسوسی ایشن اسے دودھ کی فراہمی بند کردیتی ہے اور لی مارکیٹ میں واقع منڈی میں دودھ فروخت کر دیتی ہے۔
مزید برآں کراچی، لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی کے دودھ کے نرخوں کا جائزہ لیا گیا جس سے یہ پتہ چلا ہے کہ صرف کراچی میں دودھ کی قیمتیں یکساں طور پر بڑھیں ہیں، جبکہ دیگر تمام شہروں میں قیمتیں مختلف ہیں۔ قیمتوں میں یہ یکسانیت مختلف ڈیری ایسوسی ایشنز کی جانب سے دودھ کی قیمتیں مقرر کرنے کی جانب اشارہ کرتی ہیں جو کہ کمپٹیشن ایکٹ کے سیکشن 4 کی خلاف ورزی ہے۔
شواہد کی روشنی میں انکوائری کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جولائی 2020 اور فروری 2021 میں متعلقہ مارکیٹ میں قیمتیں مقرر کرنے کا فیصلہ بنیادی طور پر ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کراچی (ڈی سی ایف اے سی) نے لیا تھا۔ اس کے فوری بعد دو دیگر ڈیری فارمر ایسوسی ایشنز، جس میں ڈیری فارمر ایسوسی ایشن کراچی (ڈی ایف اے سی) اور کراچی ڈیری فارمر ایسوسی ایشن (کے ڈی ایف اے) نے بھی قیمتیں مقرر کردی تھیں جس سے متعلقہ مارکیٹ میں دودھ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ انکوائری کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ تینوں ڈیری ایسوسی ایشن کی ملی بھگت کے بغیر متعلقہ مارکیٹ میں دودھ کے نرخوں میں اضافہ ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا متعلقہ مارکیٹ میں قیمتیں مقرر کرنے کا فیصلہ کمپٹیشن (مسابقتی) ایکٹ کے سیکشن 4 (1) اور سیکشن 4 (2)(a) کی خلاف ورزی ہے۔
کراچی کے عوام کا 47 ارب روپے کا استحصال کیسے ہوا؟
مسابقتی کمیشن کی انکوائری رپورٹ کے مطابق کمشنر کراچی کی جانب سے مقرر کردہ دودھ کی قیمت 94 روپے فی لیٹر تھی جبکہ ایسوسی ایشن مافیا نے ملی بھگت سے 120 روپے فی لیٹر پر فروخت شروع کردی جس کے نتیجے میں کراچی کے عوام کو یومیہ تقریباً 13 کروڑ روپے اور سالانہ 47 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ قیمتوں پر کوئی مسابقت نہ ہونے کی وجہ سے مارکیٹ متاثر ہوئی اور عوام کو دودھ کے معیار سے قطع نظر غیر منصفانہ قیمتوں کی ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔
ان نتائج کی روشنی میں انکوائری کمیٹی نے مسابقتی کمیشن کو سفارش کی کہ وہ ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کراچی (ڈی سی ایف اے سی)، ڈیری فارمر ایسوسی ایشن کراچی (ڈی ایف اے سی) اور کراچی ڈیری فارمر ایسوسی ایشن (کے ڈی ایف اے) کے خلاف ایکٹ کی دفعہ 30 کے تحت کارروائی شروع کرے۔