اشتہاریوں کے مدعی ہم پیشہ ساتھیوں کے لیےخاموش
ایچ آر سی پی کی درخواست پر ملک کے کئی نامی گرامی اور با اثر صحافیوں اور اینکرپرسنز کے دستخط موجود تھے۔ جب اِس درخواست کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سنوائی ہوئی تو عدالت نے اِس درخواست پر مدعا علیہان کی سخت سرزنش کی۔
گزشتہ دنوں انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اشتہاری ملزمان کی میڈیا کوریج پر پابندی کے پیمرا کے حکم نامے کو چیلینج کیاتھا۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جب تک کوئی شخص مجرم ثابت نا ہوجائے اُسے آزادی اظہار کا مکمل اختیار ہونا چاہیے۔
ایچ آر سی پی کی اِس درخواست پر ملک کے کئی نامی گرامی اور با اثر صحافیوں اور اینکرپرسنز کے دستخط موجود تھے۔ جب اِس درخواست کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سنوائی ہوئی تو عدالت نے اِس درخواست پر مدعا علیہان کی سخت سرزنش کی۔
یہ بھی پڑھیے
مالکان کے حق میں متحد پی بی اے ملازمین کے معاملے میں منقسم کیوں؟
فوزیہ ناصر احمد، باہمت صحافی ، ماہر برگر کوئین
عدالت نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت اشتہاری ملزمان کو میڈیا پر آنے کی اجازت دی جائے؟ اِس طرح تو جو بھی عدالت کا سامنا نہیں کرے اور ملک سے چلا جائے تو کو اجازت دینی پڑے گی کہ وہ جو چاہے بول سکتا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ٹوئٹر اور مجموعی طور پر پورے سوشل میڈیا پر اِس درخواست کے تناظر میں گرما گرم بحث چھڑ گئی۔ اِس درخواست کے حق اور اُس کی مخالفت میں دلائل اور برے القابات کا سلسلہ جاری رہا۔
چند صحافیوں کو ٹویٹر پر ایچ آر سی پی کی اُس درخواست پر اپنے دستخط کرنے اور مقدمے میں مدعی بننے پر وضاحت بھی دینی پڑی ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اِن صحافیوں کا یہ اقدام غیر قانونی نہیں ہے اور آزادی اظہارِ رائے کی علم برداری کے تناظر میں اہم عملی قدم ہے۔
ایچ آر سی پی کی اسلام آباد ہئی کورٹ میں جمع کرائی جانے والی درخواست میں کسی اشتہاری ملزم کا نام نہیں لکھا تھا۔ لیکن درخواست جمع کرانے کے اوقات سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ ن لیگ کے بانی نواز شریف پر پیمرا کی پابندی کے خلاف جمع کرائی گئی تھی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے یہ بااثر صحافی اُس وقت کیوں کسی عدالت میں درخواست نہیں لے جاتے جب اُن کے ساتھیوں کو میڈیا کے مختلف اداروں سے جبری طور پر برطرف کیا جاتا ہے؟
یا پھر اُن کی آواز اُس وقت کیوں نہیں بلند ہوتی جب میڈیا مالکان معاشی مشکلات کے نام پر میڈیا ورکرز کی تنخواہیں من مانے انداز میں کاٹ لیتے ہیں؟
اِن میں سے کبھی کوئی بھی اینکر پرسن اخبارات کے صحافیوں اور عملے کے جائز حق آٹھوں ویج بورڈ ایوارڈ کے لیے عدالت کیوں نہیں گیا جو طریل عرصے سے زیر التوا ہے؟
عدالتیں تو دور کی بات کب ایسا ہوا کہ اِن صحافیوں نے کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کو احتجاجی مراسلہ لکھا ہو جس میں میڈیا ورکز کی مشکلات پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہو؟
Dawn workers union protest outside head office in Karachi against pay cuts and lay offs. Underway now. pic.twitter.com/YLPOTbcHps
— Khurram Husain (@KhurramHusain) November 18, 2020
اس کی نظیر نہیں ملتی یہی وجہ ہے اِس بار ایچ آر سی پی کی درخواست پر مدعی بننے پر کئی صحافیوں پر تنقید ہوئی اور اُن کے اقدام کو جانبدارانہ قرار دیا گیا۔
حال ہی میں ایک اور خبر بھی سامنے آئی ہے جس میں انگریزی روزنامہ ڈان میں جبری برطرفیوں کے خلاف ملازمین احتجاج کر رہے تھے۔ یہ وہی ملازمین تھے جو ڈان پر حکومتی بندشوں اور دباؤ کے دوران ادارے کے ساتھ کھڑے رہے اور ہر محاذ پر مالکان کا ساتھ دیا۔
روزنامہ @dawn_com @Dawn_News سے جبری برطرفیوں کیخلاف ہارون ہاؤس کے باہر کراچی یونین آف جرنلسٹس کا بھرپور احتجاج !!!! pic.twitter.com/y9q9RR6v3I
— KUJ Official (@OfficialKuj) November 18, 2020
ایسا ہی واقعہ جیو نیوز کے ساتھ بھی پیش آیا۔ جب جیوکو مشرف دور میں بند کیا گیا تھا تو اُس کے ملازمین نے نا صرف احتجاج کیا بلکہ کئی ماہ تنخواہوں کا انتظار بھی کیا لیکن پیچھے نہیں ہٹے۔ لیکن جیسے ہی جیو نیوز بحال ہوا اُس نے معاشی مشکلات کی بنا پر بڑے پیمانے پر برطرفیاں کیں۔
اب بھی ذرائع کا کہناہے کہ وہاں فہرستیں تیار ہیں اور کسی بھی دن ملاممین کی برطرفی کا پروانا جاری ہونے والا ہے۔