کراچی چیمبر کا زمینوں پر قبضوں، بڑھتی لاقانونیت کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار

کے سی سی آئی کے صدر محمد ادریس کا کہنا وزراء اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کراچی کو مزید تباہی سے بچائیں۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد ادریس نے کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی لاقانونیت سے بری طرح متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ آج کل تاجر برادری اور عوام کی پریشانیوں کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ضلع غربی، ضلع ملیر، اسکیم33 اور حتیٰ کہ ضلع جامشورو میں ایک بار پھر زمینوں پر قبضے کی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ محکمے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل طور پر بے حس ہو چکے ہیں کیونکہ کوئی بھی امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے ساتھ ساتھ لینڈ مافیا کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔

ایک بیان میں محمد ادریس نے زور دیتے ہوئے کہا کہ زمینوں پر قبضے کی سرگرمیاں بشمول زمین کے پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ سرکاری افسران کی سر پرستی میں کی جا رہی ہے اور یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ یہ سب کچھ محکمہ ریونیو، ضلعی انتظامیہ، محکمہ انسداد تجاوزات اور پولیس کی ملی بھگت سے کیا جارہاہے اور اربوں روپے مالیت کے پلاٹ باالخصوص کراچی کے زیر تعمیر علاقوں میں غیر قانونی طریقے سے فروخت کرنے کا سلسلہ پوری آب وتاب سے جاری ہے۔خواہ سرکاری ہو یا نجی املاک، قیمتی اراضی پرکچھ انتہائی منظم اور طاقتور گروہ بلا خوف و خطرقبضہ کر رہے ہیں جو ان زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے کے بعد جعلی کاغذات بنا کر فروخت کر دیتے ہیں جس سے اصل مالکان کے لیے کافی مسائل پیدا ہوتے ہیں جو عدالت میں ملکیت ثابت کرنے کے لیے برسوں تک تکلیفیں اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ریٹیل سیکٹر ملکی  جی ڈی پی میں 18 فیصد حصہ ڈالتا ہے،  عبدالرزاق داؤد

ای سی او ممالک کے اتحاد کے جیو اکنامک ایڈوانٹیج کو ضائع کیا جا رہا ہے: ایف پی سی سی آئی

انہوں نے کہا کہ کراچی ایف بی آر کو 65 فیصد ریونیو، ایس آر بی کو 95 فیصد اور برآمدات کی مد میں 54 فیصد ریونیو دینے کے باوجود یہ شہر غیر محفوظ ماحول کے ساتھ بنیادی سہولیات سے محروم ہے کیونکہ شہر کا ایک بھی علاقہ محفوظ قرار نہیں دیا جا سکتا۔شہر کے کسی بھی علاقے میں کسی بھی بینک سے بحفاظت نقد رقم نکالنا عوام اور تاجر برادری کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔کراچی کی ہر گلی میں جرائم پیشہ عناصر بے خوف دندناتے پھر رہے ہیں اور معمولی سی مزاحمت پر بے گناہوں کو گولی مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ مختلف مواقعوں پر یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ سول ڈریس میں پولیس اہلکار بھی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے لہذا انہیں سول ڈریس میں ہتھیار لے کر چلنے سے روکا جائے۔

صدر کے سی سی آئی نے سی پی ایل سی کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امن و امان کی صورتحال کے لحاظ سے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں کیونکہ صرف فروری کے مہینے میں مجموعی طور پر 186 گاڑیاں اور 4486 موٹر سائیکلیں یا تو چھین لی گئیں یا چوری کی گئیں جبکہ اسی ماہ بھتہ خوری کا ایک واقعہ اور قتل کے 34 واقعات کے ساتھ 2199 فون بھی چھین لیے گئے۔ 2021 کے دوران 482 قتل، 116 اغوا برائے تاوان، 23 بھتہ خوری کے واقعات اور بینک ڈکیتی کی 3 وارداتیں ہوئیں اور پورے سال کے دوران تقریباً 2094 گاڑیاں اور 50841 موٹر سائیکلیں یا تو چھین لی گئیں یا چوری کی گئیں اور 25188 کے قریب موبائل فون چھیننے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ اگرچہ سی پی ایل سی کے اعداد و شمار پورے سندھ کو ظاہر کرتے ہیں لیکن یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ ان تمام مجرمانہ سرگرمیوں میں سے تقریباً 95 فیصد کراچی میں ہوئیں جو واضح طور پر کراچی میں مکمل طور پر خوفناک اور انتہائی غیر محفوظ ماحول کی نشاندہی کرتی ہے۔کراچی میں امن و امان کی صورتحال دن بہ دن نیچے کی طرف واضح طور پر جاتی دکھائی دے رہی ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی سے زیادہ نہیں رہے۔

انہوں نے کہا کہ ناقص انتظامی امور کی وجہ سے کراچی اسٹریٹ کرائمز اور زمینوں پر قبضوں کے مسائل کے باعث بری طرح متاثر ہورہا ہے جس کا حل صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب وفاقی اور صوبائی حکومتیں مربوط کوششیں کریں اور پاکستان کے اس سب سے نظر انداز شہر پر بھرپور توجہ دیں جو بدقسمتی سے ڈیڑھ دہائی سے زائد عرصے سے سوتیلی ماں جیسے سلوک کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، ڈی جی رینجرزاور آئی جی سندھ پولیس سے اپیل کی کہ وہ ہر قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنے کے لیے جنگی بنیادوں پر مؤثر اور نتیجہ خیز حکمت عملی وضع کریں باالخصوص بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز اور زمینوں پر قبضے کی سرگرمیوں کو روکا جائے تاکہ کراچی والوں کو ریلیف مل سکے اور اس شہر کو مزید تباہی سے بچایا جا سکے۔

محمد ادریس نے ملک کے وسیع تر مفاد میں وفاقی، صوبائی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ اپنے تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر کراچی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کریں جس سے اگر فوری طور پر نمٹا نہ گیا تو پورا ملک متاثر ہوگا کیونکہ پورے پاکستان کی معاشی ترقی میں کراچی کا انتہائی وسیع کردار ہے۔

متعلقہ تحاریر