نور مقدم کے والد کا بیٹی کے قاتلوں کی سزا مزید سخت کرنے کا مطالبہ

عدالت کی نور مقدم قتل کیس سے متعلق تمام اپیلوں کو یکجا کرنے کی ہدایت، سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔

نور مقدم قتل کیس میں مقتولہ کے والد شوکت مقدم کی جانب سے مجرموں کی سزا میں اضافے اور 9 ملزموں کی بریت کے خلاف دائر درخواست کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سماعت کی۔

درخواست میں ظاہر ذاکر جعفر، محمد افتخار اور محمد جان کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست گزار کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے مجرموں سے نرمی برتی گئی ہے، اور قتل جیسے سنگین جرم پر سخت سزائیں دی جانی چاہئیں تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

ہم سیکیورٹی دینگے، کوئی حادثہ ہوا تو ذمہ دار اپوزیشن ہوگی، وزیر داخلہ

کنول شوزب کا صحافی رضوان رضی کیخلاف ایف آئی اے سے رجوع

وکیل نے الزام لگایا کہ سزاوں میں طے شدہ اعلیٰ عدالتوں کے اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ایک معصوم انسان کا لرزہ خیز، افسوسناک اور وحشیانہ قتل پر عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ہائی کورٹ کے بینچ نے ماتحت عدالت سے نور مقدم کیس کا ریکارڈ طلب کر لیا۔

جسٹس عمر فاروق کا کہنا تھا کہ نور مقدم قتل کیس کے مرکزی مجرم ظاہر جعفر اور دیگر مجرموں کی جانب سے اپنی سزاوں کے خلاف اپیل دائر کی گئی ہیں۔

عدالت نے نور مقدم قتل کیس سے متعلق تمام اپیلوں کو یکجا کرنے کی ہدایت کردی اور سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

ٹرائل کورٹ نے مجرم ظاہر جعفر کے والدین ذاکر جعفر، عصمت آدم جی، خانسا ماں جمیل سمیت 9 ملزمان کو بری کیا تھا، تھراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور سمیت 6 ملزمان بھی بری ہونے والوں میں شامل تھے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے نور مقدم قتل کیس کا گزشتہ ماہ فیصلہ سنایا تھا جس میں مرکزی مجرم ظاہر جعفر کو سزائے موت اس کے ملازم مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار کو 10 ، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

قتل کی لرزہ خیز واردات 20 جولائی 2021 کو تھانہ کوہسار کی حدود ایف سیون فور میں پیش آئی تھی جہاں 27 سالہ نور مقدم کو تیز دھار آلے سے قتل کردیا گیا تھا۔

متعلقہ تحاریر