کراچی پریس کلب کے انتخابات میں خواتین صحافیوں کی نمائندگی کیوں کم؟
کراچی پریس کلب میں انتخابات 2021 کے لیے 'یونائیٹڈ' اور 'دی ڈیموکریٹس' کے درمیان مقابلہ ہے لیکن دونوں پینلز میں خواتین اُمیداواروں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔
کراچی پریس کلب کے سالانہ انتخابات سنیچر کی صبح سے جاری ہیں۔ انتخابات کے لیے پولنگ 9 سے شام 5 بجے تک بلاتعطل جاری رہے گی لیکن اِن انتخابات میں حصہ لینے والے پینلز میں خواتین کی تعداد حاصی کم نظر آ رہی ہے۔
کراچی پریس کلب میں انتخابات 2021 کے لیے ‘یونائیٹڈ’ اور ‘دی ڈیموکریٹس’ کے درمیان مقابلہ ہے۔ دونوں نے اپنے اپنے 12 رکنی پینل کا اعلان کر دیا ہے۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار کسی پینل نے نائب صدر کے عہدے کے لیے خاتون کو نامزد کیا ہے۔
یونائیٹڈ پینل کے امیدوار
یونائیٹڈ پینل سے صدر کے لیے امیدوار حبیب خان غوری اور نائب صدر کے لیے امیدوار سعید جان بلوچ ہیں۔
خزانچی کے امیدوار عطاءاللّہ ابڑو، سیکرٹری کے امیدوار قاسم خان اور جوائنٹ سیکرٹری کے امیدوار علی عمران جونیئر ہیں۔
اس کے علاوہ گورننگ باڈی کے امیدواروں میں خالد فرشوری، محمد اطہر خان، رافع حسین فاروقی، محمد عتیق، شکیل یامین کانگا، شاہین فاطمہ اور ضیاء قریشی کو نامزد کیا گیا ہے۔
دی ڈیموکریٹس کے امیدوار
دی ڈیمو کریٹس پینل سے صدارتی امیدوار روزنامہ جنگ کراچی سے فاضل جمیلی، اور نائب صدر کی امیدوار روزنامہ ڈان سے شازیہ حسن ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کیا آرٹس کونسل کراچی کے انتخابات سیاسی ہیں؟
خزانچی کے لیے 92 نیوز سے عبدالوحید راجپر، سیکرٹری کے لیے روزنامہ بزنس ریکارڈر سے محمد رضوان بھٹی، جوائنٹ سیکرٹری کے لیے روزنامہ جنگ کراچی سے امیدوار محمد ثاقب صغیر ہیں۔
اس کے علاوہ گورننگ باڈی کی 7 نشستوں کے لیے اب تک نیوز کے عبدالعزیز سنگھور، روزنامہ کاوش اور کے ٹی این سے عبدالرشید میمن، روزنامہ آغاز سے عبدالوصی قریشی، دنیا نیوز سے حامد الرحمان اعوان، اے آر وائی نیوز سے محمد فاروق سمیع، بی بی سی سے محمد نبیل او رجیو نیوز سے وابستہ سلمان سعادت خان کو نامزد کیا گیا ہے۔
ووٹرز کی تعداد کتنی ہیں؟
سالانہ انتخابات 2021 میں دی ڈیموکریٹس اور یونائیٹڈ پینل کے علاوہ دیگر امیدوار آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جس کے لیے 1493 اراکین اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
تاریخ میں پہلی بار نائب صدر کے لیے خاتون امیدوار
دی ڈیموکریٹس نے نائب صدر کے لیے امیدوار روزنامہ ڈان سے شازیہ حسن کو نامزد کیا ہے۔ اس سے قبل کبھی بھی نائب صدر کے لیے کسی خاتون امیدوار کو نامزد نہیں کیا گیا تھا۔
پینلز میں خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ پینل سازی کے عمل میں شریک صحافی رہنماؤں کا کہناہے کہ خواتین کو آگے لانے کے لیے کافی کوشش کی جاتی ہے لیکن وہ صحافتی شعبے میں مردوں کی عمل داری اور گھر اور دفتر کے کام میں توازن برقرار رکھنے کی وجہ سے پریس کلب کی سیاست سے دور رہنا چاہتی ہیں۔
صحافی رہنماؤں کا کہناہے کہ کلب کی سیاست میں ممبران کے اکثر کام بے وقت پڑ جاتے ہیں جن کے حل کے لیے صحافی رہنماؤں کو وقت نکالنا پڑتا ہے جو کہ خواتین کے قدرے مشکل ہے۔ خواتین کے کراچی پریس کلب کے انتخابات میں زیادہ نمائندگی نا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ لیکن چند خواتین پھر بھی آگے آئی ہیں او ر اُنہوں حالات کا سامنا کیا ہے۔
کراچی پریس کلب کے دونوں پینلز سے تعلق رکھنے والی خواتین پریس کلب اور صحافیوں کی تنظیمی سیاست میں فعال ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ آگے آئی ہیں۔ دوسری جانب اگر نیشنل پریس کلب کے انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو وہاں خواتین کے لیے 3 نشستیں مخصوص کر دی گئی ہیں۔ اُن پر خواتین صحافیوں کو ہی نامزد کرنا ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں خواتین صحافیوں کو زیادہ نمائندگی ملتی ہے جبکہ کراچی پریس کلب میں یہ نمائندگی دینے کے لیے کلب کے آئین میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
کراچی میں صحافیوں کے رہنما سمجھتے ہیں کہ آئین میں اس تبدیلی کی اِس لیے ضرورت نہیں ہے کیونکہ اگر خواتین صحافی انتخابی سیاست میں آگے آتی ہیں تو پھر اُنہیں مخصوص نسشتوں سے زیادہ نمائندگی بھی دی جا سکتی ہے۔
تاہم خواتین صحافیوں کو بھی صحافی ادارے میں اپنی نمائندگی کے لیے فعال کردار ادا کرنا پڑے گا۔ اگر اُنہیں پینلز میں نمائندگی نا دیے جانے کی شکایت ہے تو وہ آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے کر یہ احتجاج بھی ریکارڈ کرا سکتی ہیں۔