تحریک لبیک پر پابندی، فرانسیسی شہریوں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ٹی ایل پی پر پابندی لگنے کے بعد اس کے امیدوار کو اپنی جماعت سے وابستگی ختم کرنا ہوگی۔
حکومت نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس سے ایک خلاء پیدا ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ یہ جماعت پارلیمانی نظام کا حصہ ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں قائم فرانسیسی سفارتخانے نے اپنے شہریوں سے کہا کہ وہ فوری طور پر سنگین خطرات کے پیش نظر پاکستان چھوڑ دیں۔
#BREAKING French embassy advises its citizens to leave Pakistan over ‘serious threats’ pic.twitter.com/5fFedOAd3k
— AFP News Agency (@AFP) April 15, 2021
تحریک لبیک پاکستان نے 2018 کے عام انتخابات میں ملک بھر سے 20 لاکھ ووٹ حاصل کر کے سیاسی تجزیہ نگاروں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔
ٹی ایل پی پر پابندی کا اثر
تین دن کے پر تشدد احتجاج میں 2 پولیس اہلکاروں سمیت 5 افراد کی ہلاکت اور 340 پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کے بعد وفاقی حکومت نے بالآخر تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔ ادھر الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ٹی ایل پی پر پابندی لگنے کے بعد اس کے امیدوار کو اپنی جماعت سے وابستگی ختم کرنا ہوگی۔
یہ بھی پڑھیے
تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگانے کا فیصلہ
حکومت کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کے فیصلے کا اثر کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 249 میں ہونے والے ضمنی انتخابات پر بھی پڑے گا۔ اس حلقے میں تحریک کے ٹکٹ پر مفتی نذیر کمالوی امیدوار ہیں جو کرین کے نشان پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ایل پی پر پابندی کے بعد امیدوار کرین کے نشان پر انتخاب نہیں لڑسکیں گے تاہم اس صورت میں امیدوار آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے کے اہل ہوں گے۔
دوسری جانب سیاسی تجزیہ نگار تحریک لبیک پر پابندی کے فیصلے کو حکومت کا جرات مندانہ اقدام قرار دے رہے ہیں۔ ماضی کی حکومتیں اس معاملے پر سخت اقدام سے ہچکچا رہی تھیں کیونکہ یہ انتہائی حساس مذہبی معاملہ ہے جس کے مثبت نتائج کے ساتھ ساتھ انتہائی منفی رد عمل بھی سامنے آسکتا ہے۔
تحریک لبیک اب تک کتنی مرتبہ دھرنے دے چکی ہے؟
تحریک لبیک نے اب تک 4 مرتبہ احتجاج کیا ہے۔ نومبر 2017 کے اوائل میں تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹر چینج پر دھرنا دیا تھا۔ یہ دھرنا الیکشن سے متعلق آئینی ترمیمی بل 2017 میں حلف نامہ کے الفاظ کو بدلنے کے خلاف دیا گیا۔
حالیہ احتجاج کب شروع ہوا؟
11 اپریل بروز اتوار کو تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد رضوی نے ویڈیو پیغام میں اپنے کارکنان سے کہا تھا کہ ’اگر حکومت ڈیڈ لائن یعنی 20 اپریل تک مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ احتجاج کے لیے تیار رہیں۔‘ جس پر حکومت نے انہیں گرفتار کرلیا۔
گرفتاری کی اطلاع ملنے پر ٹی ایل پی کے کارکنان نے لاہور، اسلام آباد اور کراچی سمیت متعدد شہروں میں سڑکیں بند کر کے دھرنے دیے اور احتجاج شروع کردیا تھا۔ اس احتجاج اور دھرنے نے پرتشدد صورت بھی اختیار کرلی تھی۔
تحریک لبیک کے احتجاج کا پس منظر
فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف تحریک لبیک کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر اور فرانسیسی اشیاء کا بائیکاٹ کیا جائے۔ جس پر حکومت نے گذشتہ برس 16 نومبر کو ٹی ایل پی سے معاہدہ کیا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے پارلیمان کو شامل کیا جائے گا جس کے لئے 16 فروری کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔ فروری میں حکومت نے سمجھوتے پر عملدرآمد کے لیے مزید وقت مانگا تھا جس پر تحریک لبیک نے 20 اپریل تک احتجاج مؤخر کردیا تھا۔ ڈیڈ لائن قریب آنے پر 11 اپریل کو تحریک لبیک کی قیادت نے مطالبات پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں احتجاج اور اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔
گذشتہ برس نومبر میں تحریک لبیک سے ہونے والے مذاکرات میں وزیرِ مذہبی امور نور الحق قادری نے حکومتی ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے چار نکاتی معاہدہ کیا تھا۔ مذاکرات میں اس وقت کے وزیر داخلہ بریگیڈیئر سید اعجاز شاہ، وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ شہزاد اکبر، سیکریٹری داخلہ اور اس وقت کے کمشنر اسلام آباد عامر احمد علی بھی شامل تھے۔
سیکڑوں کارکنان کے خلاف مقدمات اور گرفتاریاں
تحریک لبیک کے سیکڑوں کارکنان کے خلاف پرتشدد احتجاج پر مقدمات درج کیے گئے اور گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں۔ سیالکوٹ میں پولیس وین نذرِ آتش کرنے، پولیس اہلکاروں کو چھت سے پھینکنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سمیت مختلف الزامات کے تحت 36 کارکنوں اور عہدیداروں سمیت مجموعی طور پر 600 نامعلوم کارکنان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جبکہ گوجرانوالہ اور گجرات میں بھی تحریکِ لبیک کے کارکنان کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں 200 سے زیادہ کارکنان و عہدیدار زیرِ حراست ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق گوجرانوالہ میں 89، سیالکوٹ میں 50، گجرات میں 48، حافظ آباد میں 22، منڈی بہاؤالدین میں 18 اور نارووال میں 17 ملزمان کو حراست میں لیا گیا ہے۔
سعد حسین رضوی کے خلاف مقدمات
لاہور اور کراچی میں سعد حسین رضوی سمیت دیگر رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں قتل اور اقدام قتل کی دفعات کے علاوہ امنِ عامہ کے آرڈیننس اور انسدادِ دہشتگردی ایکٹ شامل ہے۔
وزارت داخلہ کی رپورٹ
وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر سے 2 ہزار 135 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سب سے زیادہ 1669 افراد پنجاب اور سندھ سے 228 افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
تحریک لبیک پاکستان کا احتجاج اور ملک کا پہیہ جام
تحریک لبیک سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ
2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسی جماعت کی درخواست پر فیض آباد دھرنا کیس میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اسے ریاست کے خلاف اقدام قرار دینے کے ساتھ ساتھ ایسے عمل کو دہشت گردی سے منسوب کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیا کہا؟
سپریم کورٹ نے فروری 2019 کو فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ جاری کیا تھا جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ نومبر 2017 میں تحریک لبیک فیض آباد دھرنے میں قیادت نے لوگوں کو ڈرایا دھمکایا اور نفرت کا پرچار کیا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ شیخ رشید، اعجاز الحق اور پی ٹی آئی علماء ونگ نے تحریک لبیک کے حوالے سے آڈیو اور ویڈیو پیغامات جاری کیے۔ تحریک لبیک نے مذہبی جذبات کو ابھار کر سیاسی فائدہ اٹھایا، نفرت کی آگ بھڑکائی اور املاک کو نقصان پہنچایا۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا اوورسیز پاکستانی کے شناختی کارڈ کے حامل متحدہ عرب امارات کے رہائشی شخص نے تحریک لبیک کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کرائی۔ قانون کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت کسی غیر ملکی کی مدد سے بنائی جائے تو الیکشن کمیشن وفاقی حکومت کو یہ ریفرنس بھجوا سکتا ہے۔ وفاقی حکومت اس جماعت کو غیر ملکی امداد سے چلنے والی جماعت قرار دے سکتی ہے اور نوٹیفکیشن 15 دن کے اندر سپریم کورٹ بھیج سکتی ہے۔ سپریم کورٹ حکومتی نوٹیفکیشن کو درست قرار دیتی ہے تو یہ سیاسی جماعت تحلیل ہو جائے گی۔
نیکٹا کی ماضی کی رپورٹ کو نظر انداز کردیا گیا
نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) نے فیض آباد دھرنے کے بعد دسمبر 2017 میں تحریک لبیک پر پابندی اور سرگرمیوں کی نگرانی کی سفارش کی تھی۔ رپورٹ میں تحریک لبیک اور اس طرح کی تنظیموں کے سامنے آنے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ایسی تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ تحریک لبیک معاشرے کے لیے سنجیدہ خطرہ ہے۔ اس سے تشدد بڑھے گا جبکہ فیض آباد دھرنے کے نتیجے میں ہونے والا معاہدہ مستقبل میں ریاست کے لیے سنگین چیلنج بنے گا۔ نیکٹا کی اس رپورٹ پر ماضی کی حکومتوں کی جانب سے عملدرآمد نہیں کیا گیا۔
عوام حرمت رسول کی حفاظت سے متعلق اقدامات کے لیے پرامید
حکومت کو گستاخانہ خاکوں کی اشاعت سے متعلق قانون سازی اور دیگر اقدامات کے وعدوں پر بھی عملدرآمد کرنا چاہیے۔ پاکستانی چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت ایسے قدم اٹھائے جس سے مسلم امہ کی دل آزاری کا سبب بننے والے اقدامات کی روک تھام ہوسکے۔