برطانیہ حکومت نے برطرف مسلم سابق وزیر کے الزامات کی تحقیقات کا حکم دے دیا

سابق رکن پارلیمنٹ نصرت غنی کا کہنا ہے 2020 میں بورس جانسن کی انتظامیہ کی جانب سے انہیں برطرف کرنے وجہ مسلم عقیدہ بتایا گیا تھا۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ایک سابق مسلم وزیر نصرت غنی کے اس دعوے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے کہ اُنہیں ان کے اسلامی عقیدے کی وجہ سے حکومت سے الگ کیا گیا تھا۔

برطانوی وزیراعظم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سابق جونیئر ٹرانسپورٹ منسٹر نصرت غنی کے دعووں نے ڈاؤننگ اسٹریٹ کے لیے نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے، دوسری جانب بورس جانسن "پارٹی گیٹ” کی انکوائری کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

فرانس میں کھیلوں کے دوران حجاب پر پابندی کا قانون منظور

امریکہ میں مذہبی اور نسلی امتیاز کا شرمناک واقعہ

پیر کو جاری ہونے والے بیان میں وزیراعظم بورس جانسن کے ترجمان نے کہا ہے کہ "وزیراعظم نے کابینہ کے ارکان سے نصرت غنی کے الزامات کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔”

بورس جانسن نے ابتدائی طور پر نصرت غنی پر زور دے کر کہا تھا کہ وہ "کنزرویٹو پارٹی” کے ذریعے باضابطہ شکایت درج کرائیں۔ لیکن نصرت غنی نے کہا تھا کہ یہ الزام پارٹی کی بجائے حکومت پر مرکوز ہے۔

ترجمان نے کہا، "وزیراعظم نے اب حکام سے کہا ہے کہ وہ حقائق کو تلاش کریں کہ  اصل واقعہ کیا ہوا تھا ۔ ترجمان نے مزید کہا ہے کہ وزیراعظم بورس جانسن "ان دعوؤں کو بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں”۔

سابق رکن پارلیمنٹ نصرت غنی نے نئی تحقیقات کا خیرمقدم کیا، جس کا اعلان انہوں نے اتوار کی شام وزیراعظم کے ساتھ بات چیت کے بعد کیا گیا۔

گذشتہ روز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام شیئر کرتے ہوئے نصرت غنی نے لکھا ہے کہ "میں نے کل رات وزیر اعظم سے کہا، میں صرف اتنا چاہتی ہوں کہ میرے دعوے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور تحقیقات کی جائیں۔”

نصرت غنی نے مزید کہا ہے کہ انکوائری میں اس بات کا جائزہ لینا جائے کہ اسے ڈاؤننگ اسٹریٹ کے معاونین اور پارلیمنٹ میں کنزرویٹو وہپ دونوں نے کیا بتایا تھا۔

49 سالہ غنی کو 2020 میں وزیر ٹرانسپورٹ کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ سنڈے ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے نصرت غنی نے انکشاف کیا تھا کہ ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ میں ایک میٹنگ دوران چیف وہپ نے کہا تھا کہ آپ کی "مسلمانیت کو ایک مسئلہ کے طور پر دیکھا گیا ہے۔”

نصرت غنی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ "مسلم خاتون وزیر کا درجہ دیگر ساتھیوں کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔”

چیف وہپ مارک اسپینسر، جن کا کردار ایم پیز کو حکومت کے ایجنڈے سے منسلک رکھنا ہے، نے اپنے خلاف تمام دعوؤں اور الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔

متعدد قدامت پسندوں نے وزیر اعظم سے ان انکشافات کے بعد استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا ہے ، جبکہ وزیراعظم کے عملے کی جانب سے COVID-19 لاک ڈاؤن کے دوران ڈاؤننگ اسٹریٹ میں پارٹی کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

بورس جانسن نے ڈاؤننگ اسٹریٹ میں منعقد ہونے والی پارٹیوں میں سے ایک پارٹی میں شرکت کی تھی۔ تاہم انہوں نے قانون ایس او پیز توڑنے کی تردید کی تھی۔

برطانوی وزیراعظم نے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک سینئر سرکاری ملازم سو گرے کو تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بنایا ہے۔ رپورٹس کے مطابق، سو گرے کی رپورٹ اس ہفتے کے آخر تک سامنے آسکتی ہے۔

2018 میں بورس جانسن نے اپنے ایک اخباری کالم میں برقعہ پہننے والی مسلمان خواتین کو لیٹر بکس اور بینک ڈاکو سے تشبیہہ دی تھی جسے بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

متعلقہ تحاریر