دورہ نیوزی لینڈپرقومی ٹیم مشکلات کا شکار کیوں؟

اگر زمبابوے کے کھلاڑی حالیہ دورہ پاکستان میں ایسا کرتے ہوئے پائے جاتے تو پاکستان کرکٹ بورڈ ان کے ساتھ وہی سلوک کرتا جو نیوزی لینڈ نے پاکستان کے ساتھ کیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ زمبابوین کھلاڑیوں نے اچھے مہمان ہونے کا ثبوت دیا۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ میں موجود ہے۔ قومی ٹیم 18 دسمبر سے 3 میچز پر مشتمل ٹی ٹوینٹی سیریز، اور پھر 26 دسمبر سے 2 میچز پر مشتمل ٹیسٹ سیریز میں شرکت کرے گی۔

یہ قومی کرکٹ ٹیم کا کووڈ 19 کے دوران پہلا دورہ ہے اور نہ ہی پہلی بار وہ نیوزی لینڈ گئے ہیں۔ لیکن وہ کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے دورہ منسوخ ہونے تک کی نوبت آگئی؟ اور جس کی وجہ سے صحافیوں اور سابق کھلاڑیوں نے بورڈ کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے؟ آئیے جانتے ہیں۔

نیوزی لینڈ کی حکومت کووڈ 19 پر اتنی سنجیدہ کیوں ہے؟

جب دنیا بھر میں کرونا تیزی سے پھیل رہا تھا تو نیوزی لینڈ وہ واحد ملک تھا جس نے نہ صرف اس وباء پر قابو پایا۔ بلکہ دیگر ممالک کو بھی سکھایا کہ کرونا سے کس طرح لڑنا ہے۔

ایسے ملک میں جب پاکستان کرکٹ ٹیم کے چند کھلاڑی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے اور بغیر ماسک پہنے  گھومیں گے تو اس سے میزبان اور مہمان دونوں ممالک کی بدنامی تو ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے

ملک کی عزت داؤ پر لگانے والے نامور پاکستانی کھلاڑی

یہی وجہ ہے کہ چند کھلاڑیوں کا غیر سنجیدہ ماحول میں گھومنا اور سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعے اس بات کا ویڈیو پر آجانا کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔

اگر زمبابوے کے کھلاڑی حالیہ دورہ پاکستان میں ایسا کرتے ہوئے پائے جاتے تو پاکستان کرکٹ بورڈ ان کے ساتھ وہی سلوک کرتا جو نیوزی لینڈ نے پاکستان کے ساتھ کیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ زمبابوین کھلاڑیوں نے اچھے مہمان ہونے کا ثبوت دیا۔ جبکہ پاکستانی کھلاڑیوں نے ملک کا اچھا سفیر بننے کی کوشش ہی نہیں کی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے دورے پر کھلاڑیوں کی فوج کو کیوں روانہ کیا؟

جہاں کرونا کی وجہ سے دنیا بھر کا نظام درہم برہم ہوا وہیں کرکٹ کھیلنے اورمیچ کے انعقاد میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے صرف 3 ٹی ٹوینٹی اور 2 ٹیسٹ کے لیے 34 کھلاڑیوں اور 20 سپورٹ اسٹاف پر مشتمل دستہ نہیں بھیجا، بلکہ وہ کھلاڑی جو قومی ٹیم کے ساتھ مصروف نہیں ہوں گے، وہ پاکستان شاہینز کی جانب سے نیوزی لینڈ اے ٹیم کے خلاف میچز کھیلیں گے۔

35 رکنی اسکواڈ کو روانگی سے قبل اس وقت دھچکہ لگا جب اوپننگ بیٹسمین فخرزمان بخار میں مبتلا ہوجانے کی وجہ سے دورے سے باہر ہوگئے۔ نیوزی لینڈ پہنچنے والے دستے کے 42 ممبرز کے نہ صرف 3 کرونا ٹیسٹ منفی آئے۔ بلکہ وہ کامیابی سے کرائسٹ چرچ آئیسولیشن میں وقت گزار رہے ہیں۔ ایک ممبر آکلینڈ میں آئسولیٹ ہے جس کے دونوں ٹیسٹ منفی آئے۔

5 ممبرز مثبت ٹیسٹ آنے کی وجہ سے قرنطینہ میں ہیں۔ جبکہ دو کھلاڑیوں کو ہسٹوریکل کیس ہونے کی وجہ سے کلئیر کردیا گیا ہے۔ مزید تین کھلاڑیوں کے بارے میں رپورٹ کل آجائے گی۔ رپورٹ سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ ہسٹوریکل ہیں یا سیریس؟ ایک ٹیسٹ کا نتیجہ آنا باقی ہے جس کے بعد نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ اور حکومت آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرے گی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ تنقید کی زد میں کیوں ہے؟

کوویڈ 19 پاکستان کرکٹ بورڈ کا پھیلایا ہوا ہے اور نہ ہی اس وباء پر اس کا اختیار ہے۔ لیکن پی سی بی پھربھی تنقید کی زد میں ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ بورڈ کا غیرذمہ دارانہ رویہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

شاہد آفریدی کی افغان باؤلر کو تنبیہ

اگر کھلاڑیوں کو نیوزی لینڈ بھیجنا ہی تھا تو ان کے لیے چارٹرڈ جہاز کا انتظام کیوں نہ کیا گیا؟ انہیں کمرشل فلائٹ سے بھیج کر پہلے سے ہی لمبے سفر کو مزید طویل بنادیا گیا۔

کھلاڑیوں کا کرونا ٹیسٹ توکرکٹ بورڈ نے اچھے اسپتال سے کرادیا لیکن کیا گارنٹی تھی کہ جہازمیں موجود لوگوں کا بھی ٹیسٹ تسلی بخش ادارے سے ہوا ہو؟ کسی کو بھی کسی سے کرونا لگ سکتا  تھا اور اگر ایسا ہوجاتا تو اس کا ذمہ دار کون ہوتا؟

اور آخرمیں بات ایک گمشدہ ویڈیو کی۔ جی ہاں  پاکستان کرکٹ بورڈ نے کھلاڑیوں کی ایک ایسی ان فلائٹ ویڈیوریلیز کی جسے عموماً خاندان والے کرونا سے پہلے کے دنوں میں پکنک پر جاتے ہوئے بناتے تھے۔

بورڈ کی سوشل میڈیا ٹیم نے ویڈیو کو معرکۃ الآرا سمجھ کر جاری کردیا تھا۔ لیکن ویڈیو میں صاف صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ کھلاڑی ابھی تک پاکستان سپرلیگ کے موڈ میں ہی تھے اور ملک کی نمائندگی کرنے کے لیے جو سنجیدگی درکار تھی وہ وہاں سے گمشدہ تھی۔

شاید اسی لیے لوگوں کی جانب سے تنقید کے بعد ویڈیو کو سوشل میڈیا سے غائب کردیا گیا تھا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم دورہ نیوزی لینڈ پر تین ٹی ٹوئنٹی اور دو ٹیسٹ کھیلے گی۔ پہلا انٹرنیشنل میچ 18 دسمبر کو کھیلا جائے گا۔ جبکہ جنوری کے پہلے ہفتے میں دوسرا ٹیسٹ ختم ہوجائے گا۔ یوں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو قرنطینہ کے بعد بھی پریکٹس کرنے کے لیے اچھا خاصا وقت ملے گا۔

وہ لوگ جو پاکستان کرکٹ بورڈ پر تنقید کررہے ہیں کہ کھلاڑیوں کا ہوٹل میں بند رہنا کسی جیل سے کم نہیں۔ انہیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ دونوں ممالک کے بورڈ نے اس ‘سزا ‘کا وقت پہلے ہی طے کرلیا تھا۔ جیل میں قیدیوں کو کھانا اچھا ملتا ہے اور نہ ہی قید میں رہنے کے پیسے۔ اور یہ دونوں چیزیں ان کھلاڑیوں کو میسر ہیں۔

رہی بات پریکٹس اور فزیکل ٹریننگ کی تو فٹ رہنے والے لوگ اپنے اپنے کمروں میں بھی ٹریننگ کرلیتے ہیں۔ جس طرح بیٹنگ کوچ یونس خان آئسولیشن کا وقت گزارنے کے لیے روزہ رکھ رہے ہیں اور خود کو عبادات میں مصروف رکھ رہے ہیں اسی طرح دیگر کھلاڑی بھی نیٹ فلکس دیکھ کر کتابیں پڑھ کر یا پھر پرانے اور نئے میچز کی فوٹیج دیکھ کر خود کو مصروف رکھ سکتے ہیں۔

یہ سفر کٹھن ضرور ہے۔ لیکن کووڈ 19 کی وجہ سے پروفیشنل کھلاڑیوں کو پروفیشنلز کی طرح وقت گزارنا چاہیے۔ نہ کہ پاکستان میں موجود اپنے دوست صحافیوں سے شکایات کر کے۔ کرونا سے بچنے میں ہی قومی ٹیم کے اس دورے کی بقا ہے۔ ورنہ اگر ٹیم کو واپس بھیج دیا گیا تو دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے

پاک نیوزی لینڈ میچز کھٹائی میں پڑ گئے

متعلقہ تحاریر