کھلاڑی کھیل سے پہلے کرونا کا شکار، قصوروار کون؟

چیف ایگزیکٹو پی سی بی وسیم خان کے مطابق پاکستانی وفد کے 44 ارکان کے کرونا ٹیسٹ منفی آئے مگر صرف مثبت کیسز کی بات کی جارہی ہے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے غیرملکی دورے اکثر و بیشتر تنازعے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے کھلاڑیوں کے رویے میں کرکٹ کو لے کر خاصی سنجیدگی دکھائی دے رہی تھی۔ تاہم کرونا نے بازی پلٹ کر رکھ دی۔

قومی کرکٹ ٹیم کا دورہ نیوزی لینڈ تاحال کرونا اور مایوسی کی لپیٹ میں ہے۔ ٹیم کے 10 ارکان میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی۔ جن میں سے 6 کھلاڑی اب تک وباء کا شکار ہیں۔

صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے نیوزی لینڈ کی وزارت صحت نے پاکستانی کھلاڑیوں کو گروپ ٹریننگ کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ انتظامیہ کے مطابق پاکستانی دستہ کرائسٹ چرچ میں آئسولیشن کا سلسلہ برقرار رکھے گا۔

قومی کرکٹ ٹیم 24 نومبر کو نیوزی لینڈ پہنچی تھی۔ جس کے بعد سے اب تک قرنطینہ میں ہے۔ 9 دسمبر کو یہ مدت ختم ہونے پر کھلاڑیوں کا دوبارہ کرونا ٹیسٹ ہوگا۔ جس کے بعد پریکٹس کی اجازت دینے کا فیصلہ نیوزی لینڈ حکومت کرے گی۔

یہ بھی پڑھیے

پاک نیوزی لینڈ میچز کھٹائی میں پڑ گئے

اس سخت ترین اقدام پر پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان کی جانب سے برہمی کا اظہار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی وفد کے 44 ارکان کے کرونا ٹیسٹ منفی آئے۔ مگر اچھالا صرف مثبت کیسز کو گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ صورتحال پر نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کے حکام سے رابطے میں ہیں۔

قصوروار کون؟

یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ کھلاڑی جب پاکستان سے نکلے تھے تو تمام کے کرونا ٹیسٹ منفی آئے تھے۔ نیوزی لینڈ جا کر کھلاڑی وائرس کا شکار ہوئے۔ دیکھا جائے تو غلطی پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بھی تھی کہ انہوں نے ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا۔

تاہم نیوزی لینڈ حکام کے سخت فیصلے کے باوجود دورہ جاری رکھنے پر پی سی بی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

دس کھلاڑی کرونا کا شکار کیسے ہوگئے؟ اگر یہ کہا جائے کہ نیوزی لینڈ انتظامیہ بھی کہیں نہ کہیں قصوار ہے تو غلط نہ ہوگا۔ بلاشبہ کھلاڑیوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے حوالے سے لاپرواہی برتی گئی۔

واضح رہے کہ پاک نیوزی لینڈ سیریز کا پہلا میچ 18 دسمبر کو شیڈول ہے۔ لیکن حالیہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ دورے میں کھلاڑیوں کا کرکٹ ٹیسٹ نہیں بلکہ کرونا ٹیسٹ ہی ہوتا رہے گا۔

متعلقہ تحاریر