عمران خان توانائی کے گردشی قرضے پر افسردہ کیوں؟
یکم جنوری سے آئی ایم ایف کے دباؤ پر بجلی کے ریٹ مزید بڑھانا پڑیں گے۔ کورونا کے بعد اب عالمی منڈی میں تیل اورڈیزل کے نرخ 22 سالہ تاریخ میں پست ترین سطح پر موجود ہیں لیکن سرکلر ڈیٹ نہ اتر سکا۔ اتنے فنڈز ہی نہ تھے کہ اس نقصان کو فنڈز دے کر ختم کردیا جاتا ہے۔
پاکستان کا پاور سیکٹر سرکلر ڈیٹ جسے توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ بھی کہا جاتا ہے اب قرضوں کا گوڈزیلا بن گیا ہے۔اِس نے 13 سالوں میں پاکستانی معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے اور 4200 ارب روپے خرچ ہوکر بھی یہ مرض جوں کا توں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے ایک خطاب میں اِس بات کا برملا اظہار بھی کیا کہ اِس سیکٹر کے گردشی قرضوں نے اُن کی نیندیں اڑائی ہوئی ہیں۔اِس بیان کے پس منظر میں کیا ہے جس نے پاکستان کے وزیر اعظم جو ہر چیز کا علاج رکھنے دعوے کرتے ہیں یہ اظہار کرنے پر مـجبور کر دیا؟
معاملہ کیا ہے؟
سنہ2007 میں جب تیل کی بین الاقوامی قیمت بڑھنا شروع ہوئی اور اس وقت کی نگران حکومت نے انتخابی سال ہونے کی وجہ سے تیل سے بننے والی بجلی کے دام نہ بڑھائے۔ وہیں سے سرکلر ڈیٹ یا توانائی کے شعبے کا زیرگردش قرضہ سر اٹھا بیٹھا جو قرضوں کا پہاڑ بن گیا۔ سال 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 480 ارب روپے ادا کیے اور اسے صفر کردیا۔
جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت 2018 میں گئی تو یہ دوبارہ سر اٹھا کر 380 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ آئی ایم ایف اور وزارت توانائی کے اعدادوشمار کے مطابق اب سرکلر ڈیٹ محض ڈھائی سال میں لگ بھگ 1580 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے. اس کے علاوہ گورنمنٹ ہولڈنگ کمپنی میں بھی اس کی رقوم کھربوں روپے اور اس پر سود اربوں روپے بن چکا ہے۔
وزارت توانائی کے ذرائع کہنا ہے کہ یہ رقم بھی لگ بھگ 860 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی عوام پر سرکلر ڈیٹ کا مجموعی حجم اب 2440 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔
سر کلر ڈیٹ کیوں بنتا ہے؟
پاکستان میں بجلی کے نقصانات کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ملک میں اگر 100 روپے کی بجلی فروخت کی جائے تو اس بدلے میں صرف 79 روپے ہی وصول ہوتے ہیں۔ یہ 21 روپے یا 21 فیصد نقصانات یعنی ماہانہ 40 ارب روپے کا بوجھ معیشت پر ڈالتے ہیں۔ چونکہ اسے بینکوں سے لے کر پورا کیا جاتا ہے تو اس پر سود شامل کر کے ماہانہ سرکلر ڈیٹ پاکستان کی معیشت پر 48 سے 50 ارب روپے کا بوجھ بناتا ہے۔ یوں ہر ماہ سرکلر ڈیٹ کا اژدھا سر اٹھاتا ہے جسے قابو کرنے کے لیے ہر پالیسی ناکام ہوجاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
سندھ کے کسانوں کا فصلوں کے کم معاوضے پر احتجاج
سرکلر ڈیٹ کم کرنے میں حکومتیں ناکام کیوں؟
سرکلر ڈیٹ کے پہاڑ سے لڑنے کے لیے 2008 میں سید نوید قمر، 2009 میں شوکت ترین، 2010 سے 2013 میں حفیظ شیخ اور ڈاکٹر عاصم حسین اور راجہ پرویز اشرف، سلیم مانڈوی والا اور ماہرین کی ایک فوج ظفر موج کے ساتھ صف آراء رہے اور ناکام رہے۔ سال 2013 میں مسلم لیگ (ن) کے معاشی سپہ سالار اسحاق ڈار نے اسے 480 ارب روپے ادا کر کے یکسر ختم کیا لیکن اس کی اس ہیچری یعنی بجلی کے نقصانات کو قابو نہ کرسکے۔ پھر 2018 میں جب مفتاح اسماعیل اور اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت ختم ہوئی تو یہ 380 ارب روپے کی کثیررقم کی شکل میں موجود تھا۔
تحریک انصاف کی حکومت میں عمر ایوب، اسد عمر اور ندیم بابر بھی اس سرکلر ڈیٹ سے لڑنے کے لیے پے در پے وار کرتے رہے اور کسی حد تک کامیابی کے باوجود اب یہ دوبارہ 2440 ارب روپے تک پہنچ کر ماہرین کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور پالیسز کو منہ چڑا رہا ہے۔
سرکلر ڈیٹ کم کیسے ہوگا؟
سرکلر ڈیٹ کم کرنا ایسے ہی ہے جیسے جنت کے اعلیٰ درجات کے خواب دیکھنا۔ کیونکہ اگر تمام پاکستانی بجلی کے بل پورے دیں، عملہ بجلی کی چوری کے خلاف بہترین کارروائی کرے، تمام فیکٹریاں، کارخانے اور تمام گھریلو، کمرشل اور صنعتی صارفین بجلی کے یونٹ میں چوری نہ کریں، کنڈے نہ لگائیں، بجلی کی ترسیل کا نظام جو اس وقت 15 سے 19 فیصد نقصانات کا سبب بن رہا ہے وہ جدید اور موثر ہوجائے تو ہی اس کے نقصانات کی شرح جو 21 فیصد ہے کم ہو کر 2 فیصد ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق بجلی کا محض 1 فیصد نقصان معیشت کو 2 ارب روپے کا ٹیکہ لگا جاتا ہے اور 21 فیصد کا ماہانہ ٹیکہ 42 ارب روپے سالانہ تک پہنچ جاتا ہے۔
سرکلر ڈیٹ اور بجلی کا ریٹ بڑھنے کی تلوار
پاکستان میں بیوروکریسی سرکلر ڈیٹ کو کم کرنے کے لیے نت نئے منصوبے بناتی رہتی ہے۔ بجلی کے فی یونٹ کی اوسط لاگت 19 سے 21 روپے اور ریٹ 13 روپے کے لگ بھگ ہے۔ اگر پاکستان میں بجلی کا ریٹ 17 روپے کردیا جائے تو بجلی کے نقصانات اور سرکلر کے آئندہ اضافے کو کسی حد تک قابو کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بجلی کا ریٹ بڑھانے سے پاکستان میں مہنگائی کے اعدادوشمار آسمان سے باتیں کرنے لگیں گے۔ صنعت کا پہیہ جام ہوجائے گا اور برآمدات مہنگی ہوکر عالمی منڈی میں مقابلے کے قابل نہیں رہیں گی، اس لیے یہ آسان ہیں۔
سال 2021 میں آئی ایم ایف بجلی کے ماہانہ نقصانات کو 40 ارب سے کم کر کے ماہانہ 8 ارب روپے پر لانے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ لیکن اس کے لیے بجلی کے ریٹ میں 3 روپے 27 پیسے فی یونٹ اضافہ کرنا پڑے گا۔
بجلی کا ایک یونٹ 54 روپے میں تیار کرنے والے بجلی گھر
پاکستان میں تیل سے بجلی بنانے والا ایک بجلی گھر ماضی میں بجلی کا ایک یونٹ 54 روپے میں بناتا رہا ہے۔ اسے 8 روپے میں فروخت کیا جاتا رہا ہے جسے مسلم لیگ (ن) کے دور کے آخری میں اس وقت کے وزیر توانائی اویس خان لغاری نے بند کرایا۔ اویس خان لغاری نے تمام بجلی گھر بند کردیئے جو مہنگائی بجلی بناتے تھے اور فرنس آئل کی درآمد بھی ختم کردی گئی۔ ان کی جگہ پر ایل این جی، کوئلے سے بجلی اور چھوٹے ڈیموں اور چشمہ نیوکلیئر دوم، سوئم اور چہارم سے بھی بجلی حاصل کی گئی۔
توانائی کا بحران سمجھنے والا بیوروکریٹ چلتا کیا گیا
وزارت توانائی کی راہ داریوں میں یہ خبر زبان زدِعام ہے کہ جس سیکرٹری یا ایڈیشنل سیکرٹری کو اس شعبے کی سمجھ آئی اور اس نے اس شعبے کی لابیز کو اور اس میں موجود مافیاز کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی اسے چلتا کیا گیا۔ ظفر محمود، نرگس سیٹھی، ارشد مرزا، اعجاز چوہدری، عمر رسول اور عرفان علی تمام وہ سیکرٹرز ہیں جنہوں نے اس وزارت کی باگ دوڑ سنبھالنے کے بعد جس وقت شہ سواری سیکھی انہیں گرا دیا گیا۔
عمران خان توانائی کے بحران پر دل شکستہ کیوں؟
تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دی تھی کہ پہلے 100 دنوں میں معیشت کا رخ تبدیل کردیں گے۔ عمر ایوب مسلسل دعوے کرتے رہے کہ بجلی کے ماہانہ نقصانات کو ہر ماہ کم کیا جائے اور 31 دسمبر 2020 وہ دن ہوگا جو سرکلر ڈیٹ کے بڑھنے کا آخری دن ہوگا۔
یکم جنوری سے سرکلر ڈیٹ کی کوئی نئی رقم نہیں ہوگی اور اسے صفر پر لایا جائے گا۔ یہ تحریک انصاف کی حکومت کا طرہ رہا لیکن یہ مقررہ تاریخ بھی آن پہنچی اور بجلی کے ریٹ میں ریلیف نہیں دیا جاسکا اور ڈھائی سال میں 5 مرتبہ بجلی کے ریٹ میں اضافہ کرنے کے باوجود بھی سرکلر ڈیٹ کے گوڈزیلا پر کسی طور قابو پایا جاسکا۔
یکم جنوری سے آئی ایم ایف کے دباؤ پر بجلی کے ریٹ مزید بڑھانا پڑیں گے۔ کورونا کے بعد اب عالمی منڈی میں تیل اورڈیزل کے نرخ 22 سالہ تاریخ میں پست ترین سطح پر موجود ہیں لیکن سرکلر ڈیٹ نہ اتر سکا۔ اتنے فنڈز ہی نہ تھے کہ اس نقصان کو فنڈز دے کر ختم کردیا جاتا ہے۔
مہنگے اور نقصان دہ بجلی گھر بند کرنے پر بھی ادائیگی کرنی پڑے گی
پاکستان نے 90 کی دہائی میں فرنس آئل پر جو بجلی گھر بنائے اور بعد میں بھی جتنے بھی بجلی گھر قائم کیے انہیں پیداواری صلاحیت یعنی کپیسٹی چارجز ادا کرنے کے بھی معاہدے کیے۔ یوں اگر یہ بجلی گھر بند بھی رہیں گے تو انہیں ادائیگیاں کرنی پڑیں گی۔