سیاستدان ہارڈ ٹاک میں انٹرویو کی آفر قبول نا کریں

برطانوی نژاد جارج فلٹن نے جو پاکستان میں ایک نجی ٹی وی پر بطور میزبان کام کر چکے ہیں ایک ٹویٹ کیا ہے۔ اُس ٹویٹ میں اُنہوں نے بی بی سی کے پروگرام میں شرکت کرنے کے رہنما اصول بیان کیے ہیں۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار کا بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں انٹرویو بدھ کے روز صبح سے ہی سوشل میڈیا پر موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔

یہ انٹرویو ایک خاص کلپ کی بنیاد پر ٹاپ ٹرینڈ بھی بنا رہا۔ وہ کلپ بی بی سی ہارڈ ٹاک کے میزبان اسٹیفن ساکر نے خود شیئر کیا تھا۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ چاہیں گے کہ اُن کا پورا انٹرویو دیکھا جائے۔

پاکستان میں اُس انٹرویو کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنان کے درمیان سوشل میڈیا پر مقابلے کی فضاء قائم ہو گئی تھی۔ برطانوی نژاد جارج فلٹن نے جو پاکستان میں ایک نجی ٹی وی پر بطور میزبان کام کر چکے ہیں ایک ٹویٹ کیا ہے۔ اُس ٹویٹ میں اُنہوں نے بی بی سی کے پروگرام میں شرکت کرنے کے رہنما اصول بیان کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

عدالتیں سیاست کا محور؟

اُنہوں نے لکھا کہ وہ بی بی سی ہارڈ ٹاک پاکستان کے سابق پروڈیوسر کے طور پر پاکستانی سیاستدانوں کو پروگرام کی تیاری میں مدد دے سکتے ہیں۔ پہلے سبق کے طور پر اُنہوں نے لکھا کہ انٹرویو کی آفر قبول نا کریں۔

بی بی سی کے حالیہ انٹرویو میں اسحاق ڈار سے زیادہ تر اُن کی پاکستان یا دنیا بھر میں جائیدادوں سے متعلق سوالات کیے گئے۔ اُن سوالات کے جواب میں اُنھوں نے پاکستان میں اپنا ایک گھر تسلیم کیا جس پر اُن کے بقول حکومت کا قبضہ ہے۔

اِس کے علاوہ اُنہوں نے تسلیم کیا کہ اُن کے بچوں کے پاس دبئی میں ایک ولا ہے کیونکہ وہ وہاں 17 سال سے زیادہ عرصے سے کاروبار کر رہے ہیں۔ لیکن اِس انٹر ویو کے علاوہ اس سے قبل اسحاق ڈار اپنے سمدھی اور دوست میاں محمد نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے لیے مشکلات پیدا کر چکے ہیں۔

جب پاکستان میں پانامہ گیٹ کی تحقیقات ہو رہی تھیں تو قومی احتساب بیورو کے وکلاء نے عدالت میں اسحاق ڈار کا اقبالی بیان جمع کرایا تھا جس میں اُنہوں نے اعتراف کیا تھا کہ حدیبیہ پیپر مل میں منی لانڈرنگ کی گئی تھی۔

یہ بیان 25 اپریل 2000 میں ریکارڈ کرایا گیا تھا۔ بیان کے مطابق یہ منی لانڈرنگ سکندر مسعود قاضی اور طلعت مسعود قاضی نامی دو بھائیوں کے اکاؤنٹ کے ذریعے کی گئی جن کا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔

بعد میں اِن اقبالی بیانات کے بارے میں کہا گیا کہ وہ طاقت کے زور پر زبردستی لیے گئے تھے۔ اسحاق ڈار حالیہ انٹرویو پر خاص طور پر حکمراں جماعت اور حامی سوشل میڈیا پر بڑھ چڑھ کر حملے کر رہے ہیں۔ لیکن اِ ن حملوں کی زد میں صرف اسحاق ڈار نہیں آ رہے بلکہ صحافیوں کو بھی گھسیٹا جا رہا ہے۔

اکثر ٹوٹس میں کہا جا رہا ہے کہ اگر صحافی پیسے لے کر سوال نا کرے تو اِس قسم کے سوال کیے جاتے ہیں۔ اور حکومت پر تنقید کرنے والے کئی صحافیوں کی میمز بھی سامنے آئی ہیں۔

متعلقہ تحاریر