وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ متفقہ طور پر مسترد کردیا

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر بریفنگ کے بعد وفاقی کابینہ نے متقفہ طور پر عدالت عظمیٰ کےفیصلے کو مسترد کردیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق یہ فیصلہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ شہباز شریف نے آج وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔ ماہر قانون سعد رسول کا کہنا ہےکہ وفاقی کابینہ کے فیصلے کی حیثیت اتنی ہے جیسے کوئی عام آدمی اس فیصلے کو مسترد کردے۔

وزیراعظم کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر برینفگ دی گئی۔ اعظم نذیر تارڑ نے فیصلے کے قانونی پہلوؤں کے بارے میں وفاقی کابینہ کو آگاہ کیا۔

یہ بھی پڑھیے

پنجاب میں عام انتخابات 14 مئی کو ہوں گے، سپریم کورٹ کا حکم

فہد حسین وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے مستعفی

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر بریفنگ کے بعد وفاقی کابینہ نے متقفہ طور پر عدالت عظمیٰ کےفیصلے کو مسترد کردیا ہے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک اقلیتی فیصلہ ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے آئندہ کی حکمت عملی پر بھی غور کیا جارہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ کا اس بات پر اثرار ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا جائے گا۔ فیصلے کے خلاف فیصلے پر غور کرنے کی اپیل دائر کی جائے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نظرثانی کی اپیل میں نہیں جائےگی۔ اور اس فیصلے پر عملدرآمد بھی نہیں کیا جائے گا۔

ماہر قانون سعد رسول کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ کے فیصلہ مسترد کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آئینِ پاکستان اس وقت عمل میں ہے ، سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ کیا ہے ، آئین پاکستان کے آرٹیکل 190 کےتحت تمام لوگ اس فیصلے کے پابند ہیں۔

سعد رسول کا کہنا ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں آرٹیکل 220 کے تحت تمام ادارے الیکشن کمیشن کے تابع ہیں۔

ماہر قانون سعد رسول کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانے گا ، وہ فیصلہ اس کو پسند ہو یا ناپسند ہو ، اگر وہ نہیں مانے گا تو اس پر توہین عدالت لگی گی۔ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ توہین عدالت پر وزیراعظم کو ڈس مس کردیا گیا تھا۔

ماہر قانون سعد رسول کا کہنا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل فائل کرسکتی ہے۔ کیونکہ اب تک جو قانون مسودہ ہے وہ منظوری کے مراحل سےگزر رہا ہے ، جس کے بعد 184 (3) کے خلاف اپیل فائل کی جاسکے، وہ قانون تو ابھی بنا نہیں۔ صدر مملکت اس بل کو پاس کریں گے پھر تو وہ قانون بنے گا۔ موجودہ صورتحال میں حکومت صرف نظر ثانی کی درخواست دے سکتی ہے۔

متعلقہ تحاریر