سپریم کورٹ کے دو فیصلے: مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت کا فرق واضح

گذشتہ روز سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف میاں نواز شریف نے عوام کو سڑکوں پر نکلنے کی کال دی مگر کہیں کوئی احتجاج نہیں کیا گیا ، جبکہ ٹھیک ایک سال پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف عمران خان کی کال پر پاکستان بھر میں لوگوں نے احتجاج کیا گیا۔

مسلم لیگ (ن) کے تاحیات سربراہ میاں نواز شریف نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سخت ردعمل دیتے ہوئے عوام سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے حق کے لیے باہر نکلیں، لیکن کسی بھی میڈیا چینل نے رپورٹ نہیں کیا کہ عوام نواز شریف کی کال پر سڑکوں پر نکلے ہوں اور انہوں نے سپریم کورٹ کے خلاف احتجاج کیا ہو ، یہ فرق ہوتا ہے ایک مقبول اور ایک غیرمقبول لیڈر میں۔

گذشتہ روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ملک میں انصاف کا دہرا معیار ہے ، عدالت نے مجھے تو ایک منٹ میں نکال دیا تھا مگر عمران خان کو لانے کے لیے جتن کیے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے 

ریاست کو مفلوج کرکے لاڈلے کو لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، نواز شریف

مریم نواز نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سہولت کاری قرار دے دی

ان کا کہنا تھا ڈکٹیٹر کے لیے نظریہ ضرورت ایجاد کرلیا جاتا ہے مگر آج تک کسی وزیراعظم کے لیے تو نظریہ ضرورت ایجاد نہیں کیا گیا۔ مجھے گاڈفادر اور سسلین مافیا تک کہا گیا۔ جج عظمت شیخ نے کسی کو پرموشن دلوانے کے لیے پیغام بھیجا کہ اڈیالہ جیل میں ابھی بھی بہت جگہ باقی ہے ، جبکہ میں اس وقت وزیراعظم تھا۔

مسلم لیگ ن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پارلیمان کو بےوقعت اور حکومت کو مفلوج کرکے رکھ دیا گیا ہے، کہیں حکومتی رٹ دکھائی نہیں دیتی۔ ان کا کہنا تھا میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں آئندہ حکومتیں کیسے چلیں گی؟۔

نواز شریف کا کہنا کسی کو پھانسی گھاٹ پر لٹکایا جارہا ہے ، کسی کو عمر قید کی سزا سنائی جارہی ہے ، آمروں کے لیے نظریہ ضرورت ایجاد کرلیا جاتا ہے ، اور ہمارے جیسے وزرائے اعظم کو ایک اور دھکا دیا جاتا ہے ، ڈکٹیٹروں کو گلے لگایا جاتا ہے ، ان کے گلے میں ہار پہنائے جاتے ہیں۔

ن لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ پارلیمان سب سے اعلیٰ ادارہ ہے ، کون سا اعلیٰ ادارہ ہے، آج اس کے کسی حکم کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی، پارلیمان کو ضرور اپنی طاقت دکھانی چاہیے ، اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے ، پاکستان نے زندہ رہنا ہے ، تو پارلمنٹ کو مداخلت کرنی ہوگی۔

نواز شریف نے کہا کہ آپ خدا کا خوف کریں اس قوم کو کیا باتیں سنارہے ہیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آرہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں قوم سے کہتا ہوں کہ جاگو! ہوش کے ناخن لو، یہ لوگ پاکستان کو تباہ و برباد کررہے ہیں، اس کے خلاف کھڑے ہوجائیں۔

نواز شریف کی سپیچ پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی لیڈر کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس کی جڑیں عوام میں کتنی مضبوط ہیں۔ اس کے ایک اشارے پر عوام لبیک کہتے ہوئے باہر نکل آتے ہیں یا نہیں ، لیکن مشاہدہ بتاتا ہے کہ گذشتہ روز عوام نے نواز شریف کو کال کو مسترد کردیا ، اور کہیں احتجاج نہیں ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ  ٹھیک ایک سال پہلے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کے خلاف جب سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا تو اسی روز چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی کال پر پاکستان اور خصوصاً لاہور ، اسلام آباد ، کراچی ، پشاور میں بڑی تعداد میں لوگ باہر نکلے تھے اور قدرت کی آنکھ نے سڑکوں ، گلیوں اور چوراہوں پر عوام کے جم غفیر کا مشاہدہ کیا تھا۔ جبکہ نواز شریف کی کال پر کہیں لوگوں نے احتجاج نہیں کیا۔ خصوصاً لاہور اور اسلام آباد میں بھی لوگ نہیں نکلے ، یہ وہ شہر ہیں جن کے متعلق مسلم لیگ ن دعویٰ کرتی ہے کہ یہ ان کے شہر ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ فرق ہے دو لیڈران کی مقبولیت کا ، اور شائد اسی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم خوفزدہ ہیں ، انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ عوام ان کے ساتھ نہیں ہیں اور وہ انتخابات میں نہیں جانا چاہتے، یہ ثابت ہورہا ہے کہ کس طرح پچھلے سال لوگ نکلے تھے اور کس طرح سے آج سڑکوں پر بالکل خاموشی ہے۔

متعلقہ تحاریر