آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی: وزیراعظم، آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے دھواں دھار خطاب

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں میں خامیاں ہیں ، لیکن جس طرح 1973 آئین بنانے والے مل بیٹھے اور تاریخ رقم کی،  اس طرح اپوزیشن نے ایک سال قبل آئین کی ایک شق کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو مشکلات سے بچانے کی کوشش کی۔

آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کی تقریب کی مناسبت سے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے ایک سال قبل آئینی شق کو استعمال کر کے پاکستان کو مشکلات سے بچانے کی کوشش کی لیکن ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ حالات اتنے مشکل ہوں گے، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے وزیراعظم کو اپوزیشن سے مذاکرات کا مشورہ دیا ، کہا مذاکرات سے قبل کوئی پیشگی شرائط نہ رکھی جائیں ، وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ سازش تھی جب سیلیکٹڈ وزیراعظم ، سیلیکٹڈ آرمی چیف اور سیلیکٹڈ چیف جسٹس ہوتا پھر سول مارشل لاء لگاتے اور 10 سال تک حکومت کرتے ، مگر ہم نے تحریک عدم اعتماد سے وہ سازش ناکام بنائی۔

وزیراعظم شہباز شریف کا پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب

مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک بہت اہم دن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے معزز حاضرین اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ 50 برس گزرنے کے باوجود اور 1973 کے آئین میں متعدد ترامیم کے باوجود یہ آئین آج بھی زندہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

راجہ ریاض کو بطور اپوزیشن لیڈر کام سے روکنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 50 برس پہلے پاکستان کے وہ سیاسی زعما جو اپنے اختلافات اور سیاسی نظریات کی بنیاد پر شاید نہ مل بیٹھتے لیکن پاکستان میں آئین کی حکمرانی، عدل و انصاف کے بول بالا کے لیے انہوں نے اپنے اختلافات ایک جانب کردیے اور مل بیٹھے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایسا تاریخی کارنامہ ہے کہ جو ہمیشہ سنہرے حرفوں میں یاد رکھا جائے گا، آج کا دن انتہائی اہم ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کس طرح 1955 میں نظریہ ضرورت کو ایجاد کیا گیا اور کس طرح ایک چیف جسٹس نے ایک ڈکٹیٹر کو بغیر پوچھے 3 سال کی رعایت دے دی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان کو ری رائٹ بھی کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ سیاست دانوں میں خامیاں ہیں ، لیکن جس طرح 1973 آئین بنانے والے مل بیٹھے اور تاریخ رقم کی اس طرح پاکستان کی اپوزیشن نے ایک سال قبل آئین کی ایک شق کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو مشکلات سے بچانے کی کوشش کی۔

آصف علی زرداری کا خطاب

سابق صدر مملکت اور شریک چیئرمین پیپلزپارٹی آصف علی زرداری نے کہا کہ میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا شاہد ہوں، بدقسمتی سے ہم نے جمہوریت بچانے کا جو خواب دیکھا تھا وہ پورا نہ ہوسکا اور یہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سیاست میں مذہب کا استعمال نہیں کیا، میں نے کئی چیزوں کا مشاہدہ کیا اور بڑے اونچ نیچ کے مقام دیکھے ہیں، میرے پاس سارے راز ہیں، کچھ راز شیئر کر سکتا ہوں،کچھ شیئر نہیں کر سکتا، میں اپنی نسل کو ٹوٹا پاکستان چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، نسل کو پورا پاکستان دے کر جاؤں گا۔

ان کا کہنا تھا ڈائیلاگ کی اتھارٹی وزیراعظم کے پاس ہے لیکن شہباز شریف سے درخواست کروں گا کہ اپوزیشن سے مذاکرات کریں اور مذاکرات میں آنے سے پہلے شرائط نہ رکھی جائیں، اپوزیشن کو بھی مذاکرات کے لیے شہباز شریف کے پاس آنا ہو گا کیونکہ یہ وزیراعظم ہیں۔

سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ہم آئین کے ساتھ کسی کو کھلواڑ کرنے نہیں دیں گے، کچھ دوست، دوستوں کو دشمن یا مخالف بنانا چاہ رہے ہیں ایسا نہیں ہو گا، جو ہم نے کہہ دیا ہے ویسا ہوگا۔

اُن کا کہنا تھا پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ کورٹ نے نوٹس بھیجا، میرے خلاف سو موٹو نوٹس ہوئے میں نے دیکھے ہیں، ہمارے خلاف پہلے بھی انٹریز ہوتی رہی ہیں، میری بہن کو رات 12 بجے اسپتال سے اٹھا کر جیل میں ڈالا گیا اس وقت کسی نے سو موٹو نہیں لیا۔

انہوں نے کہا کہ جب بینظیر بھٹو شہید ہوئیں تو ہم نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، آج کا صدر مانتا ہے کہ میں نے اگر کوئی دوسرا نعرہ لگاتا تو پاکستان نہیں بچتا۔

بلاول بھٹو کا آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب

وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کے حوالے سے قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس سےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم 1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی منانے کے لیے موجود ہیں اور ہر پاکستانی کے لیے یہ تاریخی دن ہے اور میرے لیے بطور چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی اور بینظیر بھٹو کے بیٹے کی حیثیت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس دن 10 اپریل 1973 کو پاکستان کے آئین کا وفاقی، جمہوری، اسلامی اور متفقہ آئین کی بنیاد رکھی گئی اور پاکستان کی تاریخ میں بہت مشکلات کا سامنا کیا اور ہر مشکل وقت عوام، سیاسی، سماجی کارکنوں نے ان مسائل کا مقابلہ کیا، آمریت کا مقابلہ کیا، ایک نہیں بلکہ تین،تین آمروں کو بھگایا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان ایک زمانے میں زمین کے طور پر ٹوٹ بھی چکا تھا اور ہم اس بحران کا مقابلہ کرکے آگے بڑھے اور آج یہ وفاق موجود ہے، پاکستان اکٹھا ہے تو جو زنجیر چاروں صوبوں کو ملا کر پاکستان کی شکل میں ایک ملک اور ایک قوم پوری دنیا کو نظر آرہا ہے تو وہ زنجیر پاکستان کا آئین جو سارے صوبوں کو جوڑ کر پاکستان بناتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 10 اپریل ہمارے لیے ایسا تاریخی اور اہم دن ہونا چاہیے کہ ہمارے سلیبس میں یہ دن ہونا چاہیے اور ہماری آنے والی نسلوں کو اس دن کے بارے میں سکھانا چاہیے تاکہ ہر پاکستانی کو پتا ہو کہ 1947 میں جب پاکستان بنا تھا تو 10 اپریل 1973 کو ہمارے آئین کی بنیاد رکھی گئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ دن خوشی کا دن ہے، جمہور کی فتح کا دن ہے، 10 اپریل 1973 پاکستان کے آئینی سفر کے ابتدا کا دن ہے، آج ہماری 50 سال کی جدوجہد کی یوم تاسیس کا دن ہے، خوشی کے ساتھ یہ دن ہمارے لیے اس جمہوریت اور آئین کی خاطر دی ہوئی قربانیوں کو یاد کرنے کا بھی دن ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ 1973کے خالق ذوالفقار علی بھٹو نے غریب کو آواز دی اور عوام کو حکومت دینے کی سزا میں انہیں شہید کیا گیا، جنہوں نے آئین کا دفاع کرنا تھا انہوں نے اس جرم میں شامل تھے اور ایک آمر کو اس ملک پر مسلط کیا گیا، جس نے اس ملک میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کا بوجھ ڈالا اور اس کا مقابلہ ہم آج تک کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 10 اپریل 1986 کو لاہور میں بینظیر بھٹو کا تاریخی استقبال ہوا اور انہوں نے جمہوریت کی بحالی اور آئین کی بالادستی کا سفر شروع کیا، یہ سفر اور جدوجہد چلتی رہی اور بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں 1973 کے آئین کی بحالی کے لیے 30 سال جدوجہد کیا لیکن آمر ضیاالحق کے بعد ایک اور آمر آیا جنرل پرویز مشرف آیا اور اس نے جو بیج بوئے اس کے نتیجے میں ہم آج بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں اور آج بھی اسی قسم کی نفرت اور تقسیم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

متعلقہ تحاریر