پاکستانی جج کی عدالتی فیصلہ سازی میں چیٹ جی پی ٹی سے مدد لینے کی کوشش
اگر ججز چیٹ جی پی ٹی یا گوگل بارڈ جیسے پروگرامز کے استعمال میں مہارت حاصل کرلیں اور دستیاب اعداد و شمار، حقائق اور کیس کے حالات و واقعات کی بنیاد پر درست سوالات کرتے رہیں تو چیٹ جی پی ٹی متعلقہ اور قابل اعتماد جوابات فراہم کر کے انسانی ذہن پر بوجھ کو کم کر سکتا ہے، جج ک ریمارکس
عدالتی فیصلہ سازی میں چیٹ جی پی ٹی 4 جج کے لیے کس طرح معاون ثابت ہو سکتا ہے؟ یہ سوال منڈی بہاالدین کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے نو عمر ملزم کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اٹھایا۔
ان کا سوال اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے فرد کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔
یہ بھی پڑھیے
گوگل کا مائیکرو سافٹ کے چیٹ جی پی ٹی4 کے مقابلے میں اپنا پروجیکٹ لانے کا اعلان
علی ظفر کے استفسار پر چیٹ جی پی ٹی4 نے معاشی بحران کا حل پیش کردیا
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق گوکہ چیٹ جی پی ٹی اور اسکے دیگر ہم عصر چیٹ بوٹس حالیہ مہینوں میں تیزی سے دنیا بھر میں خبروں کی زینت بن رہے ہیں مگردنیا کے دیگر حصوں کی طرح پاکستان میں تاحال چیٹ بوٹس کو بطور محقق اور پیشہ ور کے طور پر اس تیزی سے استعمال نہیں کیا جارہا ہے۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عامر منیر نے حتمی حکم نامہ مرتب کرنے کے بعد چیٹ جی پی ٹی سے قانونی سوال پوچھا کہ کیا جیل میں قید نو عمر بچوں کی ضمانت بعد از گرفتاری ہوسکتی ہے؟
جس پر چیٹ جی پی ٹی4 کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون ماہرین کو مصنوعی ذہانت پربھروسہ کرنے سے پہلے ابھی طویل سفر طے کرنا ہے، جج نےاپنے ریمارکس میں کہاکہ اگر ججز چیٹ بوٹ پروگرامز، مثال کے طور پر چیٹ جی پی ٹی یا گوگل بارڈ کے استعمال میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں اور دستیاب اعداد و شمار، حقائق اور کیس کے حالات وواقعات کی بنیاد پر درست سوالات کریں تو چیٹ جی پی ٹی متعلقہ اور قابل اعتماد جوابات فراہم کر کے انسانی ذہن پر بوجھ کو کم کر سکتا ہے۔
چیٹ جی پی ٹی4 مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک لینگویج ماڈل ہے جو اوپن اے آئی نامی کمپنی نے بنایا ہے، اسے لوگوں کی معاونت کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جس کے اندر سوالات کے جواب دینے کے لیے بہت زیادہ تفصیلات رکھی گئی ہیں جبکہ مشین لینگویج لرننگ کے ذریعے وہ مسلسل خود کو بہتر بھی بنا رہا ہے۔