اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ خاکوں کے معاملے پر خاموش تماشائی

اس وقت توہین آمیز خاکوں کے معاملے پر ایک مشترکہ کوشش گرم لوہے پر ہتھوڑا مارنے کے برابر ثابت ہوسکتی ہے

وہ طاقت جو اتحاد میں پنہا ہے اُس کی اہمیت کو کسی بھی قیمت پر کم نہیں کیا جاسکتا اور اگراس کے پیچھے کوئی ٹھوس مقصد کارفرما ہو تو وہ اسکی اہمیت میں اضافے کا باعث بن جاتا ہے۔

مسلم ممالک نے مسلمانوں کے آخری پیغمبر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق گستاخانہ خاکوں کی نمائش کے بعد ایک اسکول استاد کا سرقلم کئے جانےکے بعد فرانسیسی حکومت کے موقف کی شدید مذمت کی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے اُمور سے متعلق مسلم دنیا کے خدشات کو سامنے لانے کےلئے بنائی جانے والی تنظیم نے اپنا موثر کردار ادا نہیں کیا ہے۔

پورے معاملے میں آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز (او آئی سی) اور عرب لیگ کا کردار مایوس کن رہا ہے۔

اگرچہ اسلامی تعاون تنظیم یا (او آئی سی) کے جنرل سکریٹیریٹ نے مسلم جذبات اور پیغمبر اسلام کی توہین کے خلاف مسلسل حملوں اور اشتعال انگیزی کی مذمت کی ہے  تاہم اس کے کردار کو بھی موثر قرار نہیں دیا جا سکتا ۔

اس گھمبیر اور اہم مسئلے پر اس وقت مسلم دنیا کے فورمز کی غیرفعالی اس پورے احتجاج کو محض وقتی ردعمل بنا سکتی ہے۔ اگر مسلم دنیا کے ادارے اپنے لوگوں کو اس معاملے پر متحرک نہیں کرتے تو فرانس پردباؤ کے غبارے سے جلد ہوا نکل جائے گی۔

او آئی سی کو اپنے تمام ممبران ممالک کے لئے ایک لائحہ عمل ترتیب کرنے کی ضرورت ہے جس میں سفارتی دباؤ بڑھانا اورفرانسیسی  مصنوعات کا اجتماعی بائیکاٹ شامل ہوسکتا ہے، اس وقت ایک مشترکہ کوشش گرم لوہے پر ہتھوڑا مارنے کے برابر ثابت ہوسکتی ہے ۔

یہ اقدامات یورپی اقوام کو مسلم مخالف تبصرے پر معافی مانگنے اور مستقبل میں فرانس کو اس قسم کی کارروائیوں کو دہرانے سے روک سکتے ہیں۔

فرانسسی وزارت خارجہ کی جانب سےکہا گیا ہے کہ مصنوعات کے بائیکاٹ کے ‘بے بنیاد’ اعلانات کے پس پردہ ‘شدت پسند اقلیت’ ہے۔

دوسری جانب کویت ، اردن اور قطر میں فرانسیسی مصنوعات کومختلف دکانوں سےہٹایا جاچکا ہے جبکہ لیبیا ، شام اور غزہ میں احتجاج دیکھنے میں آرہے ہیں۔

متعلقہ تحاریر