ایشیائی ترقیاتی بینک نےمقامی آبادی کے اعتراضات کے بعد ملیر ایکسپریس وے سے ہاتھ کھینچ لیے
سندھ حکومت کے ترجمان اور وزیراعلیٰ کے قانون کے مشیر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے ڈان کو بتایا کہ ملیر ایکسپریس وے ایک پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) منصوبہ ہے اور اس کی مالی اعانت ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے نہیں کی۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے کہا ہے کہ ملیر ایکسپریس وے منصوبے کو بینک نے وسائل کے ذریعے فنڈنگ کے لیے ترجیحی فہرستوں سے نکال دیا گیا ہے۔
انڈیجینس لیگل رائٹس الائنس (ILRA) کی جانب سے بینک حکام کو پروجیکٹ سے متاثرہ لوگوں کی جانب سے درخواست موصول ہونے پر خط لکھا گیا ہے ، خط میں منصوبے سے ان کے گھروں اور زرعی زمینوں کے تباہ ہونے کی تفصیلات شیئر کی گئی ہیں۔
ملیر کے رہائشی حفیظ بلوچ نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر اے ڈی بی کے خط کی کاپی شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "ملیر کے مقامی لوگوں کے اعتراض پر اے ڈی بی نے ملیر ایکسپریس وے کو ماحولیاتی بنیادوں پر مسترد کر دیا۔”
Over the objection of the indigenous people of Malir, ADB rejected the Malir Expressway on environmental grounds. This success is certainly small, but there is also a question mark on the decision of the Sindh Environment Tribunal#ADB_Reject_MEX @BBhuttoZardari @MuradAliShahPPP pic.twitter.com/hCpp4ExY9x
— Hafeez Baloch AWP (@BalochHafeez201) April 28, 2023
یہ بھی پڑھیے
دی اکانومسٹ نے پاکستان میں مزید معاشی بدحالی کی پیشگوئی کردی
پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر کی سطح عبور کرگئے
تاہم، سندھ حکومت کے ترجمان اور وزیراعلیٰ کے قانون کے مشیر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے ڈان کو بتایا کہ ملیر ایکسپریس وے ایک پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) منصوبہ ہے اور اس کی مالی اعانت ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے نہیں کی۔
سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ یہ خالصتاً پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا منصوبہ ہے اور منصوبے کو اے ڈی بی سے تعاون حاصل نہیں ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے ترجمان کے مطابق ملیر کے دو رہائشیوں کی شکایت پر پراجیکٹ کو فنڈنگ لسٹ نکال دیا گیا ہے۔
ILRA نے متاثرہ لوگوں کی جانب سے ایکسپریس وے کے منفی ماحولیاتی اثرات کے بارے میں ADP کے پاس شکایت درج کرائی تھی۔
اے ڈی بی حکام کا کہنا ہے کہ خط میں اٹھائے گئے اعتراضات کی بنیاد پر پروجیکٹ ٹیم مسائل کا باریک بینی سے مشاہدہ کررہی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ملیر ایکسپریس وے منصوبہ اے ڈی بی کی مالی اعانت سے بننے والے سندھ حکومت کے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ ہے۔ تاہم، اس منصوبے کے لیے اے ڈی بی کی جانب سے باقاعدہ فنڈنگ کے لیے آج تک کوئی وعدہ نہیں کیا گیا ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ منصوبوں کا انتخاب حکومت کی ترجیحات کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے تاکہ اس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو ترقی دینے کے وسیع امکانات پیدا کیے جا سکیں۔
ملیر کے دو رہائشیوں اور کسانوں محمد اسلم اور عظیم نے IRLA کے ذریعے اس منصوبے کے خلاف اپنی وکیل عبیرہ اشفاق کے ذریعے ADB کے سامنے شکایت درج کرائی تھی۔
خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے غلط ماحولیاتی اثرات کی تشخیص (EIA) کی ہے اور ملیر ایکسپریس وے سے بہت زیادہ ماحولیاتی اور معاشی نقصانات ہوں گے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے سے زرعی پیداوار میں کمی آئے گی اور کراچی کے مضافات میں ملیر ندی کے ساتھ ایک گرین بیلٹ کو بھی نقصان پہنچے گا جس نے شہر کو موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات خصوصاً ہیٹ ویوز اور سیلاب سے محفوظ کر رکھا ہے۔
دوسری جانب صوبائی حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت منصوبے کے لیے 27 ارب روپے فراہم کررہی ہے ، منصوبہ ایک نیا جنوبی راستہ فراہم کرے گا جو بندرگاہ، کورنگی انڈسٹریل ایریا، لانڈھی انڈسٹریل ایریا کے ہزاروں مسافروں اور بھاری کمرشل ٹریفک کو سہولت فراہم کرے گا ، منصوبہ سپر ہائی وے پر ڈی ایچ اے سٹی اور بحریہ ٹاؤن کو آپس میں رابطہ فراہم کرے گا۔