چترال میں صورت حال کنٹرول میں ہے، ڈی سی لوئر چترال
ڈی سی لوئر چترال محمد علی کے مطابق چترال میں فوجی چوکیوں پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد صورتحال مکمل طور پر کنٹرول میں ہے۔
واضح رہے کہ آئی ایس پی آر کے مطابق افغانستان کی جانب سے جدید اسلحہ سے لیس شدت پسندوں نے بڑی تعداد میں چترال میں دو فوجی چوکیوں پر حملہ کیا جس کے بعد جھڑپوں میں چار سکیورٹی اہلکار اور 12 شدت پسند ہلاک ہوئے۔
ڈی سی لوئر چترال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بدھ کی صبح پانچ بجے اشورٹی اور جنجیرت کے علاقوں میں طالبان اور فورسز کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جو آٹھ بجے تک جاری رہا۔‘
ڈی سی لوئر چترال محمد علی نے بتایا کہ ’آٹھ بجے کی بعد ایک گھنٹے کے لیے فائرنگ تھم گئی لیکن یہ سلسلہ اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے جاری رہا۔‘
انتظامیہ کی جانب سے سکیورٹی فورسز اور طالبان کی درمیان جھڑپوں میں کسی مقامی شخص کے زخمی یا ہلاک ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جس مقام پر جھڑپیں ہوئی ہیں یہاں آبادی نہیں لیکن کیلاش اور شیخان قبیلے کی چراگاہیں ہیں۔
خیال رہے کہ جن علاقوں میں طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں یہ سیاحتی علاقے کیلاش کے قریب پاک افغان سرحد کی جانب ہیں۔
یہ پہاڑی علاقے سردیوں میں برف سے ڈھکے رہتے ہیں اور یہاں مقامی افراد یا سرحد پار سے نقل و حرکت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے تاہم گرمیوں میں ان چراگاہوں میں مقامی افراد تو جاتے ہیں تاہم علاقے سے باہر سے آنے والے لوگوں کو یہاں فوج کی اجازت کے بغیر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
بی بی سی سے گفتگو میں چترال کے مقامی افراد نے بتایا کہ شدت پسندوں کی سرحد پار سے آمد کے حوالے سے پچھلے پانچ چھ روز سے اطلاعات آ رہی تھیں اور کہا جا رہا تھا کہ پہاڑوں پر نوجوان لڑکے افغانستان کی جانب سے آئے ہیں۔
ایک حکومتی اہلکار نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ چترال میں شدت پسندوں کی افغان سرحد پر نقل و حرکت کے حوالے سے پانچ روز سے ہی الرٹ موجود تھا اور تین روز پہلے ہی پولیس اور سکیورٹی فورسز کی مزید نفری بھجوانے کی درخواست دے دی گئی تھی۔