سوئی سے نوجوان فٹبال کھلاڑیوں کا اغوا: ’بڑے لوگوں کی اولاد ہوتے تو فوراً رہا کروایا جاتا‘
’بچوں کے اغوا کی وجہ سے ہمارے خاندان جس اذیت سے گزر رہے ہیں اسے صرف وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیں جو خود ایسے المیوں اور تکالیف سے گزرے ہوں‘
یہ کہنا تھا بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے ذاکر حسین بگٹی اور امیر بخش بگٹی کا جن کے بیٹوں کو تحصیل سوئی سے نامعلوم افراد نے اغوا کیا۔
ذاکر حسین کے بیٹے عامر بگٹی اور امیر بخش کے بیٹے یاسر بگٹی فٹبال کے کھلاڑی ہیں اور ان کو سینیچر کے روز دیگر چار ساتھی کھلاڑیوں کے ہمراہ نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دونوں کھلاڑیوں کے والدین نے کہا کہ بچوں کے اغوا سے خاندان کا ہر فرد ہی پریشان ہے لیکن بچوں کی مائیں اور بہنیں جس صدمے سے دوچار ہیں اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم تمام والدین کی دعا ہے کہ ہمارے بچے بحفاظت بازیاب ہوں اور ہماری درخواست یہی ہے کہ ہمارے بچوں کی بحفاظت بازیابی کو یقینی بنائیں۔
سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ ان کھلاڑیوں کے اغوا کی اطلاع کے فوراً بعد ان کی بازیابی کے لیے کوششیں شروع کی گئیں اوراس حوالے سے اب تک 14 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے بتایا کہ کھلاڑیوں کی بازیابی کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے اور جلد پیشرفت متوقع ہے۔
یاسر بگٹی
،تصویر کا ذریعہAMEER BAKSH
،تصویر کا کیپشن
یاسر بگٹی اغوا ہونے والے کھلاڑیوں میں شامل ہیں
مغوی کھلاڑی کون ہیں اور وہ کہاں جارہے تھے؟
اغوا ہونے والے تمام نوجوان فٹبال کے کھلاڑی ہیں اور ان کا شمار ڈیرہ بگٹی کے معروف کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔
اغوا ہونے والے کھلاڑیوں میں عامر بگٹی اور یاسربگٹی کے علاوہ فیصل بگٹی، سہیل احمد، شہزاد بگٹی اور بابر بگٹی شامل ہیں۔
ان میں سے پانچ کھلاڑیوں کا تعلق گیس کی پیداوار کے حوالے سے بلوچستان کے مشہور علاقے سوئی جبکہ ایک کا تعلق ضلعی ہیڈ کوارٹر ڈیرہ بگٹی سے ہے۔ اغوا ہونے والے تمام کھلاڑیوں کا تعلق بگٹی قبیلے کی ہی ذیلی شاخوں سے ہے۔
سبی میں محکمہ کھیل سے تعلق رکھنے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اغوا ہونے والے کھلاڑی چیف منسٹر گولڈ کپ کوالیفائر کھیلنے کے لیے ڈیرہ بگٹی سے متصل ضلع سبی آ رہے تھے۔
خیال رہے کہ ڈیرہ بگٹی انتظامی لحاظ سے سبیّ ڈویژن کا حصہ ہے اور چیف منسٹر گولڈ کپ کوالیفائر کے میچز ڈویژن کے ہیڈکوارٹر سبی میں منعقد ہو رہے ہیں۔
محکمہ کھیل کے اہلکار نے بتایا کہ سبی سے کوالیفائی کرنے کی صورت میں ان کو بلوچستان کی سطح پر کھیلنے کے لیے کوئٹہ جانا تھا۔
مغوی نوجوان
،تصویر کا ذریعہBALOCHISTAN SPORTS DEPARTMENT
،تصویر کا کیپشن
اغوا ہونے والے کھلاڑیوں میں سہیل احمد اور بابر بگٹی بھی شامل ہیں
’یہ بڑے لوگوں کے بچے ہوتے تو فوراً مذاکرات کے ذریعے بازیاب کروایا جاتا‘
مواد پر جائیں
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین
’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا
قسطیں
مواد پر جائیں
اغوا ہونے والے نوجوان کھلاڑی یاسر بگٹی کے والد امیر بخش بگٹی کا کہنا ہے کہ جس مقام سے ان کے بچوں کو اغوا کیا گیا وہ سوئی سے تقریباً سات سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
انھوں نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر یہ بڑے لوگوں کے بچے ہوتے تو ان کو فوراً مذاکرات کے ذریعے بازیاب کروایا جاتا۔‘
امیربخش بگٹی نے بتایا کہ ان کے بیٹے یاسر نے گریجویشن کی ہے اور اسی طرح ان کے دوسرے ساتھی بھی پڑھے لکھے ہیں۔
’میں نے جس طرح اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو پڑھایا اور بڑا کیا وہ صرف مجھے ہی معلوم ہے لیکن اب وہ نہ صرف اس ظلم کے شکار ہو گئے بلکہ ہم سب بھی ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے بیٹے کو جنون کی حد تک فٹ بال کا شوق تھا اس لیے میں نے اس کے شوق کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی لیکن آج اس کے اغوا کے بعد ہمارے خاندان کے لوگ جس اذیت سے گزر رہے ہیں اس کو دیکھنے کے بعدیہ سوچتا ہوں کہ کاش اس کو کھلاڑی بننے سے روک دیتا تو شاید ہم اس تکلیف سے بچ جاتے۔ یقین کریں ہم پر نیند حرام ہو گئی ہے۔‘
عامر بگٹی کے والد ذاکر حسین نے بتایا کہ بیٹے کے اغوا کے باعث والدہ، اہلیہ اور بیٹیاں صدمے سے دوچار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بچوں کو کسی سیکورٹی کے بغیر بھیج دیا گیا جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر سرکار کی جانب سے ان کو بھیجا جا رہا تھا تو کم از کم ان کو سکیورٹی میں بھیجا جاتا تو اس واقعے سے بچا جا سکتا تھا۔‘
تاہم اسسٹنٹ کمشنر سوئی کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کی روانگی کے حوالے سے انتظامیہ کو آگاہ نہیں کیا گیا اور اگر انتظامیہ کو آگاہ کیا جاتا تو ان کو باقاعدہ سکیورٹی فراہم کی جاتی۔
سرکاری حکام کا کیا کہنا ہے؟
کھلاڑیوں کی بازیابی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوا۔
تاہم اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے چھ بچے دہشت گردوں کے قبضے میں ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ کھلاڑیوں کی بازیابی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس مقصد کے لیے ڈیرہ بگٹی میں بڑے پیمانے پر ایک آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ حکومت نے اس واقعے کا سختی سے نوٹس لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کے اغوا کے واقعے کے فوراً بعد ان کی بازیابی کے لیے ایک بڑا آپریشن شروع کر دیا گیا۔ اور کھلاڑیوں کی بازیابی کے حوالے سے جلد پیشرفت متوقع ہے۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے آپریشن میں عام آبادیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں تاہم اس حوالے سے سوال پر نگران وزیر اطلاعات کا کہنا تھا جب کسی جرم کے بعد کوئی کارروائی کی جاتی ہے تو اس کے خلاف بے بنیاد پروپیگیڈہ کیا جاتا ہے۔
بلوچستان کے سیکریٹری داخلہ اور ڈپٹی کمشنر ڈیرہ بگٹی سے بھی اس سلسلے میں رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوا تاہم اسسٹنٹ کمشنر سوئی سعیدالرحمان کاکڑ نے بتایا کہ اغوا کے واقعے کے اطلاع ملتے ہی کھلاڑیوں کی بازیابی کے لیے کارروائی شروع کر دی گئی۔
انھوں نے کہا کہ ’میں خود دیگر سکیورٹی اہلکاروں کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچا تو وہاں سے 18 افراد کو ریسکیو کیا گیا جبکہ باقی چھ کھلاڑیوں کی بازیابی کے لیے فوری کارروائی کرتے ہوئے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اب تک کھلاڑیوں کے اغوا کے سلسلے میں لیویز فورس اور سی ٹی ڈی نے 14 مشکوک افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
عامر بگٹی
،تصویر کا ذریعہBALOCHISTAN SPORTS DEPARTMENT
،تصویر کا کیپشن
عامر بگٹی
کھلاڑیوں کو کہاں سے اغوا کیا گیا؟
نگراں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر علی مردان ڈومکی کے ایک بیان کے مطابق کھلاڑیوں کو تحصیل سوئی میں جانی بیڑی کے مقام سے اغوا کیا گیا۔
اغوا ہونے والے کھلاڑی اکیلے سفر نہیں کر رہے تھے بلکہ ایک وین میں 18 دیگر افراد بھی ان کے ہمراہ تھے۔ یہ افراد اوستہ محمد اور ڈیرہ مراد جمالی کے راستے سبیّ جا رہے تھے۔
واضح رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان میں حالات خراب ہونے کے بعد سے کوئٹہ اور سبیّ سمیت بلوچستان کے مغربی اور جنوبی علاقوں کے لیے ڈیرہ بگٹی کے لوگ زیادہ تر آمدو رفت کے لیے اسی راستے کو استعمال کرتے ہیں۔
اسسٹنٹ کمشنر سوئی سعیدالرحمان کاکڑ نے بتایا کہ گاڑی میں مجموعی طور پر 24 افراد سفر کر رہے تھے جنھیں مذکورہ مقام پر مبینہ طور پر ’علیحدگی پسندوں‘ نے روکا اور مذکورہ چھ کھلاڑیوں کو اغوا کر لیا۔
بلوچستان کے محکمہ سپورٹس کے آفیسر کے مطابق ڈیرہ بگٹی سے فٹ بال کھلاڑیوں کے ٹرائل کے دوران 18 کھلاڑیوں کو سلیکٹ کیا گیا جو کہ دو آفیشلز کے ہمراہ سبیّ جا رہے تھے۔
محکمہ سپورٹس کے اہلکار نے بتایا کہ مسلح افراد موٹر سائیکلوں پر تھے اور وہ وین میں سوار چھ کھلاڑیوں کو اغوا کر کے نامعلوم مقام پر لے گئے۔