پنجاب میں انجیکشن کے باعث متعدد افراد ‘بینائی سے محروم’

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے حکام کے مطابق صوبے کے چند اضلاع میں ذیابیطس کے مریضوں کے آنکھوں کے علاج میں استعمال ہونے والے انجیکشن آوسٹن کے استعمال کے باعث مبینہ طور پر درجنوں مریض بینائی سے ہی محروم ہو گئے ہیں۔

یہ خبر اس وقت سامنا آئی جب پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور نے سوشل میڈیا پر اپنے بھائی کے اس انجیکشن سے متاثر ہونے کے بارے میں بتایا تھا۔

نگراں وزير صحت پنجاب ڈاکٹر جاوید اکرم نے اس معاملے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’متعدد متاثرہ افراد کی بنیائی آوسٹن کے جعلی انجیکشن لگائے جانے کی وجہ سے ضائع ہوئی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جعلی انجیکشن لاہور کی ایک ڈسپنسری کے دو کمروں میں تیار کیا جا رہا تھا، جسے سیل کر دیا گیا ہے۔ ہم نے تین لوگوں کو گرفتار بھی کیا ہے اور مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔‘

ان کا مزيد کہنا تھا کہ ہم اس معاملے کا مزید جائزہ لے رہے ہیں کہ یہ انجیکشن کہاں کہاں فروخت کیا جا رہا تھا۔ تاہم ہم نے فوری طور پر مارکیٹ میں اس کی فروخت بند کر دی ہے۔

دوسری جانب نگران وزیر برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈاکٹر جمال ناصر کا کہنا ہے کہ لاہور، قصور، ملتان اور صادق آباد میں الگ الگ ڈیلرز ’جعلی‘ انجیکشن فروخت کر رہے تھے۔

یہ انجیکشن کتنی مقدار میں کہاں کہاں بنائے اور فروخت کیے جا رہے تھے اس سے متعلق ابھی تک کوئی اعدادوشمار اور حقائق حکومت کی جانب سے سامنے نہیں رکھے گئے ہیں۔

آوسٹن نامی یہ انجیکشن مزید کن بیماریوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؟ اس بارے میں ہم نے چند ماہرین سے بات کی ہے۔ تاہم اس سے پہلے اس انجیکشن سے مبینہ طور پر متاثر ہونے والے چوہدری منظور کے بھائی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں جانتے ہیں۔

ذیابیطس،تصویر کا ذریعہSCIENCE PHOTO LIBRARY
’بھائی کی آنکھ میں ناقابلِ برداشت درد ہوا، صبح اٹھے تو ان کی بینائی جا چکی تھی‘
مواد پر جائیں
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین
’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں
مواد پر جائیں
دو روز قبل پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور کے بھائی جو شوگر کے مریض ہیں نے آنکھوں میں تکلیف کی شکایت کی تو انھیں قصور کے ہی ایک ہسپتال میں لے جایا گیا۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری منظور نے بتایا کہ ’وہاں انھیں آوسٹن نامی ایک انجیکشن لگوایا گیا۔ یہ انجیکشن آنکھ کے اندر لگایا جاتا ہے، جس کے بعد ان کی آنکھوں میں درد بڑھنا شروع ہو گیا۔

’رات گئے میرے بھائی نے شکایت کی کہ ان کا درد ناقابلِ برداشت ہو رہا ہے۔ تاہم جب وہ صبح اٹھے تو ان کی بینائی جا چکی تھی۔‘

انھوں نے مزيد بتایا کہ ’ہم انھیں فوری طور پر لاہور لے گئے جہاں جب انھیں ڈاکٹر کو دکھایا گیا تو ڈاکٹر نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ان کی بینائی اسی انجیکشن سے گئی ہے۔‘

ان کے مطابق ’اس کے بعد وہ اپنے بھائی کو لاہور کے ہی ایک اور نجی ہسپتال میں ایک دوسرے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو انھوں نے ہمیں یہ بتایا کہ اس انجیکشن سے متاثر ہو کر اب تک ڈھائی تین سو مریض آ چکے ہیں۔ جبکہ ہماری موجودگی میں ہی دس بارہ مزید متاثرہ مریض وہاں آئے۔‘

’اس کے بعد میں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے یہ ٹویٹ کی کہ میرا بھائی اس انجیکشن سے متاثر ہوا ہے اس لیے احتیاط کریں تاکہ دوسرے لوگوں کو تکلیف اور نقصان سے بچایا جا سکے۔‘

انھوں نے بتایا اس ٹویٹ کے بعد جب انتظامیہ کے علم میں یہ مسئلہ آیا تو مجھ سے رابطہ بھی کیا گیا اور کہا گیا کہ میں اپنے بھائی کو فوراً میو ہسپتال لے آؤں۔

ان کے مطابق ’میو ہسپتال لاہور کے سی ای او ڈاکٹر اسد اسلم نے فوری ان کا آپریشن کروایا اور ہمیں بتایا گیا کہ اس انجیکشن کی وجہ سے ان کی بینائی چند ہی گھنٹوں میں ختم ہو گئی تھی اس لیے ضروری تھا کہ آنکھ کا فوری آپریشن کیا جائے۔

’ابھی تک میرے بھائی کی آنکھ سے پٹی نہیں ہٹائی گئی ہے اس لیے ہمیں نہیں معلوم کہ آپریشن کے بعد ان کی بینائی آئی ہے یا نہیں۔‘

intravenal،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
انجیکشن آوسٹن کس لیے استعمال کیا جاتا ہے؟
انجیکشن آوسٹن ہے کیا اور کیا یہ صرف آنکھوں کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے؟ اس بارے میں بات کرتے ہوئے آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر ناصر چوہدری نے اس بارے میں بتایا کہ ’اس انجیکشن میں اینٹی کینسرس مواد شامل ہوتا ہے جو عام طور پر کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

’اس کے علاوہ یہ انجیکشن عموماً شوگر کے مریضوں میں پائی جانے والی بیماری ’ریٹینو پیھتی‘ کے علاج کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔‘

ڈاکٹر ناصر چوہدری کے مطابق ’ریٹینو پیھتی‘ نامی بیماری میں مریض کا شوگر لیول زیادہ ہونے کی وجہ سے آنکھوں میں موجود باریک شریانیں لیک ہونا شروع ہو جاتی ہیں، جو نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے بعد آنکھوں میں نئی شریانیں بننا شروع ہو جاتی ہیں جو بہت مضبوط نہیں ہوتی ہیں۔ اس تمام تر عمل کو روکنے کے لیے ایسے مریضوں میں اس انجیکشن کا استعمال کیا جاتا ہے۔

انھوں نے مزيد بتایا کہ ’یہ انجیکشن ایک سے زیادہ مرتبہ مریض کو لگایا جاتا ہے اور پاکستان میں اس کا استعمال تمام ڈاکٹر اور ہسپتال کرتے ہیں کیونکہ یہ مریضوں کے لیے کم قیمت میں دستیاب ہوتا ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اس انجیکشن کے استعمال سے پہلے ہر مریض کی بیماری کی پوری ہسٹری حاصل کی جاتی ہے جس کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس مریض کو یہ انجیکشن لگنا چاہیے یا نہیں۔

’جیسا کہ دل کے مریض یا فالج کے مریضوں میں اس انجیکشن کے مضر اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ اس لیے اس کے استعمال میں احتیاط ضروری ہوتی ہے۔‘

پاکستان میں 70 لاکھ افراد کو ذیابیطس کا خدشہ
14 نومبر 2016
ذیابیطس کیا ہے اور آپ اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
14 نومبر 2018
’ذیابیطس سے ہر سال ڈیڑھ سے دو لاکھ پاکستانی معذور‘
21 مئ 2018
injection،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
اس انجیکشن کے دوسرے ممالک میں استعمال پر پابندی کیوں لگی؟
آوسٹن نامی انجیکشن کے استعمال پر کئی ممالک پابندی عائد کر چکے ہیں جس میں امریکہ اور انڈیا بھی شامل ہیں تو پھر پاکستان میں اس کا استعمال کیوں کیا جا رہا ہے؟

اس انجیکشن کے پاکستان میں استعمال کے بارے میں آنکھوں کے ڈاکٹر ناصر چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ انجیکشن کم قیمت کی وجہ سے دنیا کے ان ممالک میں بھی استعمال کیا جا رہا جہاں اس پر پابندی ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ اس انجیکشن میں استعمال ہونے والا سالٹ اگر ایک مریض کو بارہ سو میں پڑتا ہے تو اسی نسل کا دوسرا انجیکشن ہزاروں روپے میں ملتا ہے، اس لیے اس انجیکشن کے استعمال کو بند نہیں کیا جا سکتا ہے۔

یہ انجیکشن ’روش‘ نامی کمپنی بناتی تھی جس نے خود ہی چند کیسز میں مسئلہ سامنے آنے کے بعد اس دوائی کے مخصوص مریضوں میں اس کے استعمال کو روکا تھا۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں یہ انجیکشن ڈریپ سے منظور شدہ ہونے کے بعد ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں جو کیسز سامنے آئے ہیں وہ اس دوائی کے مضر اثرات کی وجہ سے نہیں بلکہ جعلی انجیکشن کے استعمال کی وجہ سے سامنے آئے ہیں۔‘

دوسری جانب اسی معاملے پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی اور نگران وزیر صحت کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اس معامالے پر پانج رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے، جو ہر پہلو کا جائزہ لے گی جبکہ اس بات کی تحقيقات بھی کی جائیں گی کہ کیا ماضی میں بھی اس دوا سے کوئی متاثر ہوا ہے۔‘

انھوں نے مزيد کہا کہ ’ہماری جانب سے متاثرين کو بہترین سہولیات دی جائیں گی جبکہ قبضے میں لیے گئے انجیکشن ٹیسٹنگ کے لیے بھجوا دیے گئے ہیں جن کی رپورٹ دو سے تین دن میں آ جائے گی۔‘

جمال ناصر نے بتایا کہ ’یہ انجیکشن ملٹی نیشل کمپنی بناتی ہے اور یہ انجکشن سو ملی گرام کا ہوتا ہے۔ تاہم ایک مریض کو 1.2 ملی گرام کی ڈوز کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ بارہ سے تیرہ سو روپے تک فروخت ہو رہا ہے، جس میں بے حد منافع ہے۔‘

ان کے مطابق ’یہ بڑے ظلم کی بات ہے کہ جو لوگ ایک انجیکشن پر ایک، ایک لاکھ روپے کا منافع لے رہے ہیں۔‘

متعلقہ تحاریر