ورلڈ کپ 2023: پاکستان کرکٹ ٹیم کو انڈیا روانگی سے 48 گھنٹے پہلے ویزے مل گئے

پاکستان کرکٹ ٹیم کو انڈیا روانگی سے صرف 48 گھنٹے پہلے انڈین ہائی کمیشن کی جانب سے ویزا فراہم کر دیے گئے ہیں۔

پی سی بی کے ترجمان نے پاکستانی ٹیم کو ویزا ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہمیں بالآخر انڈین ہائی کمیشن کی جانب سے کال کر کے اس بارے میں تصدیق کی گئی ہے۔

یہ فون کال پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے آئی سی سی کو لکھے گئے ایک خط میں کے چند گھنٹے بعد سامنے آئی ہے جس میں پی سی بی نے پاکستانی سکواڈ کو ورلڈ کپ کے لیے ویزا ملنے میں ’غیرمعمولی تاخیر‘ اور انڈیا کی جانب سے ’امتیازی سلوک‘ روا رکھنے کو ’ناقابلِ قبول‘ قرار دیا تھا۔

آئندہ ماہ ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب انڈین ریاست حیدرآباد کے لیے روانہ ہونا ہے تاہم تاحال انڈیا کی جانب سے پاکستانی کھلاڑیوں اور سٹاف کو ویزے جاری نہیں کیے جا رہے تھے۔

ویزا فراہمی کا یہ عمل آئی سی سی کی جانب سے پی سی بی کو ملنے والے ایک دعوتی خط کے بعد اگست میں ہی شروع ہو گیا تھا اور پی سی بی نے ایشیا کپ میں ٹیم کی سفری ضروریات کے باعث بغیر پاسپورٹ کے ویزا دینے کی درخواست کی تھی جسے رد کر دیا گیا تھا۔

اس کے بعد پی سی بی کی جانب سے 19 ستمبر کو ایشیا کپ سے واپسی پر تمام کھلاڑیوں کے ویزا انڈین ہائی کمیشن کو فراہم کیے گئے تھے تاہم ویزا دینے میں تاخیر ہو رہی تھی۔

پی سی بی کی جانب سے آئی سی سی کو لکھے گئے خط میں اس تاخیر کی وجہ ممکنہ طور پر انڈین وزارت داخلہ سے ’این او سی‘ نہ دیا جانا بتایا گیا تھا۔

مواد پر جائیں
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین
’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں
مواد پر جائیں
پاکستان نے اپنا پہلا وارم اپ میچ 29 ستمبر کو نیوزی لینڈ کے خلاف حیدر آباد میں کھیلنا ہے اور پہلے ہی پاکستان کرکٹ ٹیم گذشتہ ہفتے دبئی میں ہونے والی ’ٹیم بلڈنگ ایکسرائز‘ ویزا میں تاخیر کے باعث ملتوی کر چکی ہے۔

اس سے قبل پی سی بی کے ترجمان عمر فاروق کالسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’انڈین ہائی کمیشن کی جانب سے ہر روز 24 گھنٹے کا وقت دے دیا جاتا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہوا ہے اور اب بات کل پر چلی گئی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی تمام ٹیموں میں سے صرف پاکستان کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے جو ناقابلِ قبول اور اگر اب کل بھی ویزا نہیں دیا جاتا تو معاملہ مزید تاخیر کا شکار ہو گا اور پاکستان کی ورلڈ کپ کے لیے تیاری متاثر ہو سکتی۔‘

تاہم اس خبر کی اشاعت کے چند گھنٹے بعد ہی انڈین ہائی کمیشن کی جانب سے پاکستان کرکٹ سکواڈ کو ویزا کی فراہمی کی تصدیق کر دی گئی ہے۔

اکثر انڈین صحافیوں کی جانب سے پاکستان کو ویزا ملنے میں تاخیر کی وجہ یہ بتائی جا رہی تھی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاسپورٹ دینے میں تاخیر کی گئی ہے۔

عمر فاروق کالسن کا کہنا تھا کہ ’یہ بات مضحیکہ خیز ہے کہ پاسپورٹ دینے میں تاخیر کی گئی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک بین الاقوامی ایونٹ ہے جس کے لیے سالوں پہلے سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے، ایسے نہیں ہو سکتا کہ پاسپورٹ تاخیر کی وجہ بنیں۔‘

pak india،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
آئی سی سی کو لکھے گئے خط میں کیا کہا گیا تھا؟
پی سی بی کی جانب سے آئی سی سی کو لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ اگر اس طرح کی تاخیر پاکستانی ٹیم اور پی سی بی کے اہلکاروں کو دیکھنے کو مل رہی ہے تو پھر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی مداحوں اور صحافیوں کی ویزا درخواستوں میں کتنی تاخیر ہو گی۔

خط میں کہا گیا تھا کہ ’پاکستان میں بھی اب اس حوالے سے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا بھر سے مداحوں کے ویزا کے حوالے سے شکایات آ رہی ہیں۔‘

پی سی بی کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ میزبان کے طور پر بی سی سی آئی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والے ممالک کو ویزا کی وقت پر فراہمی کو یقینی بنائے۔

پی سی بی نے آئی سی سی سے اس ضمن میں چار سوال بھی پوچھے تھے کہ آیا بی سی سی آئی نے بطور میزبان آئی سی سی کو کوئی گارنٹی دی تھی کہ ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی ٹیموں کو ویزا فراہم کیے جائیں گے۔ اگر بی سی سی آئی پاکستان ٹیم کو بروقت ویزے فراہم نہیں کرتا تو کیا یہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی؟ اگر ایسا ہے تو بی سی سی آئی کو کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور انڈین حکومت کی جانب سے ویزا نہ دیے جانے کی صورت میں آئی سی سی کیا کارروائی کرے گا؟

pakistan،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
سنہ 2011 کے ورلڈ کپ میں موہالی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیمی فائنل کھیلا گیا تھا جسے دیکھنے کے لیے پاکستان کے س وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی بھی گئے تھے

سیاسی تناؤ اور ورلڈ کپ کے شیڈول کے اعلان میں تاخیر
یاد رہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سفارتی کشیدگی کرکٹ پر بھی اثر انداز ہوتی رہی ہے۔

پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس سے پہلے سنہ 2012-13 میں ون ڈے سیریز کھیلنے کے لیے انڈیا گئی تھی جس میں پاکستان نے انڈیا کو تین صفر سے شکست دی تھی۔

اس کے بعد سے دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان سیاسی تناؤ کے باعث پاکستان اور انڈیا نے ایک دوسرے کے ملک میں جا کر سیریز کھیلنے سے انکار کیا۔

گذشتہ دس برس میں پاکستان نے انڈیا جا کر سنہ 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شرکت کی تھی۔

اس ورلڈ کپ سے پہلے بھی ایشیا کپ میں انڈیا کی پاکستان آنے سے معذرت کے بعد سے دونوں بورڈز کے سربراہان کے درمیان دبئی میں ملاقاتیں ہوئی تھیں جس کے بعد ایشیا کپ کو ہائبرڈ ماڈل پر کھیلنے پر اتفاق ہوا تھا۔

اس ورلڈ کپ کے شیڈول اور پاکستان انڈیا میچ کی تاریخ بھی متنازع رہی تھی۔ عام طور پر ورلڈ کپ کا شیڈول کئی ماہ پہلے سامنے آ جاتا ہے تاہم اس مرتبہ شیڈول کا اعلان صرف دو ماہ پہلے کیا گیا۔

اسی طرح ابتدائی طور پر انڈیا اور پاکستان کا میچ 15 اکتوبر کو احمد آباد میں شیڈول تھا تاہم اسی روز ہندوؤں کے تہوار نوراتری کا پہلا روز ہونے کی وجہ سے اب یہ میچ ایک دن قبل یعنی 14 اکتوبر کو کھیلا جائے گا۔

یہی نہیں حیدرآباد کی پولیس کی پولیس کی جانب پاکستان ٹیم کو 29 ستمبر کو کھیلے جانے والے پہلے وارم اپ میچ کے لیے سکیورٹی فراہم کرنے معذوری ظاہر کی تھی جس کے بعد اب اس میچ میں تماشائیوں کو آنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

متعلقہ تحاریر