فوج کی مقبولیت 88؍ فیصد، سیاست دانوں پر عوام کا اعتماد 39؍ فیصد
گیلپ کے جولائی میں کرائے گئے سروے کے مطابق دیگر تمام اداروں کے مقابلے میں فوج کی مقبولیت سب سے زیادہ 88 فیصد ہے۔ یہ سروے گیلپ پاکستان نے ایک سیاسی تنظیم کیلئے کرایا تھا جو ان نتائج کا تجزیہ کرنا چاہتی تھی۔ سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام کو میڈیا اور عدالتوں پر 56؍ فیصد تک بھروسہ ہے تاہم عمومی طور پر سیاست دانوں پر لوگوں کے بھروسے کی سطح صرف 39؍ فیصد، پارلیمنٹ پر 47؍ فیصد، الیکشن کمیشن 42؍ فیصد، پولیس پر 54؍ فیصد تک بھروسہ ہے۔ بھروسے کے لحاظ سے میڈیا اور عدالتوں کی ریٹنگ اور اسکور بہتر ہے اور یہ 56؍ فیصد تک ہے۔ سروے میں یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ اداروں کے کام کرنے کے انداز سے کس حد تک مطمئن یا غیر مطمئن ہیں۔ فوج کے معاملے میں اطمینان کی سطح 88؍ فیصد، میڈیا اور عدالتیں 56؍ فیصد، الیکشن کمیشن آف پاکستان 42؍ فیصد، بلدیاتی حکومتیں 51؍ فیصد، پولیس 54؍ فیصد، پارلیمنٹ 47؍ فیصد جبکہ سیاست دان بحیثیت عمومی 39؍ فیصد تک رہی۔ صوبائی سطح پر دیکھیں تو پنجاب میں فوج کی مقبولیت کی سطح 90؍ فیصد، سندھ میں 88؍ فیصد، کے پی 91؍ فیصد جبکہ بلوچستان میں 66؍ فیصد ہے۔ پنجاب میں سیاست دانوں کی مقبولیت کی سطح 43؍ فیصد، سندھ میں 34؍ فیصد، کے پی میں 29؍ فیصد جبکہ بلوچستان میں 34؍ فیصد ہے۔ صوبوں میں سروے میں حصہ لینے والے تقریباً سبھی لوگوں نے فوج کے کام کرنے کے انداز پر اطمینان کا اظہار کیا، ماسوائے بلوچستان کے جہاں فوج کی مقبولیت 66؍ فیصد ہے۔ عمومی لحاظ سے دیکھیں تو سروے میں شامل لوگوں کی اکثریت نے سیاستدانوں کیلئے منفی رائے کا اظہار کیا اور ان میں ایسی خواتین نے نچلی سطح پر ریٹنگ دی جو کے پی میں رہتی ہیں اور نسبتاً بہتر تعلیم یافتہ ہیں۔ سیاستدانوں میں دیکھیں تو عمران خان کی مقبولیت 60؍ فیصد ہے، ان کے بعد سعد رضوی اور پرویز الٰہی کا نام آتا ہے اور دونوں کی مقبولیت 38؍ فیصد ہے، شاہ محمود قریشی 37؍ فیصد، نواز شریف 36؍ فیصد، شہباز شریف 35؍ فیصد، مریم نواز 30؍ فیصد، شاہد خاقان عباسی اور دیگر 28؍ فیصد۔ پنجاب میں دیکھیں تو عمران خان کی مثبت مقبولیت کی سطح 58؍ فیصد، سعد رضوی 49؍ فیصد، پرویز الٰہی 49؍ فیصد، شاہ محمود قریشی 43؍ فیصد شہباز شریف 43؍ فیصد، نواز شریف 41؍ فیصد، شاہد خاقان عباسی اور دیگر 33؍ فیصد تک ہیں۔ مقبولیت کی اس فہرست میں بلاول بھٹو کا نام شامل نہیں۔ سروے کے مطابق، مثبت لحاظ سے سب سے زیادہ مقبولیت کی سطح پی ٹی آئی حکومت کو اپنی معاشی کارکردگی کی وجہ سے ملی اور یہ 64؍ فیصد تک رہی۔ سیاسی جماعتوں کے حوالے سے دیکھیں تو سروے میں شامل لوگوں کی 38؍ فیصد تعداد پی ٹی آئی، 16؍ فیصد نون لیگ، 10؍ فیصد پیپلز پارٹی، 15؍ فیصد ٹی ایل پی، 9؍ فیصد جماعت اسلامی، 6؍ فیصد ایم کیو ایم پاکستان کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ 44؍ فیصد لوگوں نے کہا کہ انہوں نے 2018ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا جبکہ 23؍ فیصد نے نون لیگ جبکہ 16؍ فیصد نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔ اگر الیکشن آئندہ ہفتے ہو جائیں تو نون لیگ کے ووٹروں سے دگنی تعداد میں ووٹرز پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے۔ ہر پانچ میں سے دو (37؍ فیصد) افراد کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان پارٹی کے صدر نہ ہوں تو وہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے۔ پی ٹی آئی کے ووٹروں کی آدھی تعداد کا کہنا ہے کہ بھلے ہی عمران خان پارٹی کے صدر نہ رہیں وہ پھر بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے۔ اگر پی ٹی آئی الیکشن میں حصہ نہ لے تو پی ٹی آئی کے ووٹروں کی تقریباً چوتھائی تعداد نون لیگ کو ووٹ دے گی۔ سروے کے مطابق، دو میں سے ایک شخص کا کہنا تھا کہ وہ خود کو اپنی من پسند سیاسی جماعت کا سخت حامی سمجھتا ہے۔ ایک سوال کہ اگر الیکشن آئندہ ہفتے ہو جائیں تو آپ کس جماعت کو ووٹ دیں گے؛ کے جواب میں سروے میں پنجاب سے شامل لوگوں کی 41؍ فیصد تعداد نے پی ٹی آئی، 28؍ فیصد نون لیگ، 4؍ فیصد پیپلز پارٹی جبکہ 6؍ فیصد نے ٹی ایل پی وغیرہ کو ووٹ دینے کا بتایا۔ سندھ میں 36؍ فیصد کا کہنا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے، 35؍ فیصد پیپلز پارٹی، 3؍ فیصد نون لیگ، 2؍ فیصد ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کو ووٹ دیں گے۔ خیبر پختونخوا کے معاملے میں 69؍ فیصد نے کہا کہ وہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے، 12؍ فیصد نون لیگ جبکہ 2؍ فیصد پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ بلوچستان کے معاملے میں پی ٹی آئی سرفہرست رہی اور 36؍ فیصد نے کہا کہ وہ تحریک انصاف کو ووٹ دیں گے، 18؍ فیصد نے کہا وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے جبکہ اے این پی اور نون لیگ کیلئے 11؍ فیصد عوام نے آمادگی ظاہر کی۔ سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ نوجوان ووٹرز (جو پہلی مرتبہ ووٹ ڈالیں گے) میں پی ٹی آئی کو نمایاں مقبولیت حاصل ہے اور یہ وہ نوجوان ہیں جن کے پاس بہتر تعلیم اور اچھا انٹرنیٹ ہے۔ شمالی پنجاب میں پی ٹی آئی مقبول ہے جبکہ مرکزی اور مغربی پنجاب میں کم مقبول ہے۔ کراچی میں اب بھی پی ٹی آئی کیلئے بھاری مقبولیت پائی جاتی ہے۔ نون لیگ مرکزی پنجاب اور صوبے کے دیگر علاقوں میں مقبول ہے۔ اچھے تعلیم یافتہ لوگوں کے مقابلے میں کم تعلیم یافتہ طبقہ نون لیگ کی طرف مائل ہے۔ سروے میں شامل لوگوں کی 35؍ فیصد تعداد کا کہنا تھا کہ اگر الیکشن آئندہ ہفتے ہو جائیں تو وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ اندرون سندھ پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک برقرار ہے۔ پیپلز پارٹی کو بلوچستان میں بھی حمایت حاصل ہے۔ اگر عمران خان پی ٹی آئی کے سربراہ نہ رہے تب بھی پانچ میں سے دو افراد کا کہنا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے۔ اگر پی ٹی آئی الیکشن میں حصہ نہ لے تو 24؍ فیصد لوگ نون لیگ 20؍ فیصد پیپلز پارٹی، 8؍ فیصد ٹی ایل پی، 5؍ فیصد جے یو آئی ف، پانچ فیصد جماعت اسلامی، 4؍ فیصد اے این پی اور 4؍ فیصد ایم کیو ایم کو ووٹ دیں گے۔ سیاسی جماعتوں کی حکومت اور فوجی حکومت کے آپشن کو دیکھیں تو سروے میں لوگوں کے ایک بڑے حصے کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے مقابلے میں وہ فوجی حکومت کی حمایت کریں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب عوام کو یہ آپشن دیا گیا کہ عمران خان اور نواز شریف میں سے وہ کس کو چنیں گے تو جواب میں صرف تین فیصد کا فرق ہے یعنی 46؍ فیصد نے کہا وہ عمران خان کو ووٹ دیں گے جبکہ 43؍ فیصد نے کہا وہ نواز شریف کو ووٹ دیں گے۔ فوج کا سیاست میں کردار ہونا چاہئے یا نہیں: اس سوال کے جواب میں 32؍ فیصد کا کہنا تھا کہ فوج کا سیاست میں بڑا کردار ہونا چاہئے جبکہ 31؍ فیصد نے کہا کہ فوج کا سیاست میں بالکل کردار نہیں ہونا چاہئے۔ 5؍ فیصد نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نون لیگ کے 43؍ فیصد ووٹرز کا کہنا تھا کہ فوج کا ملکی سیاست میں بڑا کردار ہونا چاہئے جبکہ اس معاملے میں پی ٹی آئی کے 26؍ فیصد اور پیپلز پارٹی کے بھی 26؍ فیصد لوگوں نے یہی جواب دیا۔ پی ٹی آئی میں 38؍ فیصد لوگ چاہتے ہیں کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے۔ نون لیگ میں یہ فیصدی شرح 21؍ جبکہ پیپلز پارٹی میں 28؍ فیصد رہی۔