علما کے احتجاج پر پروفیسر کا حلف نامہ: ’ڈارون کے نظریہ ارتقا سمیت شریعت کے خلاف تمام سائنسی افکار باطل ہیں‘

پاکستان میں بائیولوجی کے ایک پروفیسر کو خواتین کے حقوق کے بارے میں تقریر اور سوشل میڈیا پر بیانات پر مقامی علما کی جانب سے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد پروفیسر نے ضلعی انتظامیہ کی موجودگی میں تحریری طور پر معافی مانگی ہے۔

یہ واقعہ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں میں پیش آیا، جہاں مقامی کالج میں بائیولوجی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر نے سٹامپ پیپر پر معافی نامہ تحریر کر کے دیا ہے۔

معاملہ ہے کیا؟
بنوں کی تحصیل ڈومیل میں چند روز قبل اسلام اور آئین میں خواتین کے حقوق پر ایک سیمینار منعقد ہوا تھا جہاں دیگر مقررین کے ساتھ مقامی کالج میں بائیولوجی کے ایک پروفیسر کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔

اس سیمینار میں پروفیسر کی جانب سے کی جانے والی تقریر کو مقامی علما نے متازع قرار دیا ہے اور کہا کہ وہ خواتین کے پردے کے بارے میں غلط رائے بیان کر رہے ہیں، جس سے نوجوانوں کے ذہن خراب ہو رہے ہیں۔

اس تقریر کو لے کر ضلع بنوں میں گذشتہ چند روز کے دوران انتہائی کشیدگی رہی ہے اور اس بارے میں سوشل میڈیا پر لوگوں کی متضاد رائے بھی سامنے آتی رہی ہے۔

یہ تقریر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد علاقے میں ہونے والے مذہبی اجتماعات میں ان کا نام لے کر ان کے خلاف تقاریر کی گئیں جس کے باعث کشیدگی بڑھی۔

ڈپٹی کمشنر بنوں محمد نواز وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر پروفیسر صاحب کی ایسی تقاریر سامنے آئیں، جس پر کچھ لوگ مشتعل ہو سکتے تھے اور علما میں اس بارے میں تشویش پائی جاتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انتطامیہ نے بھر پور کوشش کی کہ یہ کشیدگی کم ہو اور کوئی مسئلہ نہ بن جائے کیونکہ یہ خدشہ تھا کہ بڑا ہجوم اگر اس بارے میں نکل آتا تو پھر اس کو کنٹرول کرنا مشکل ہو سکتا تھا۔

مواد پر جائیں
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین
’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں
مواد پر جائیں
ان کا کہنا تھا کہ اس پر اسسٹنٹ پروفیسراور علمائے کرام آئے اور ان سے بات چیت کی، جس کے بعد پروفیسر نے تحریری بیان پر دستخط کیے ہیں جس کے بعد بظاہر کشیدگی میں کمی واقع ہوئی ہے۔

اس تحریری بیان میں اسسٹنٹ پروفیسر نے کہا ہے کہ ضرورت کے تحت خواتین کے باہر نکلنے کے لیے سر سے لے کر پاؤں تک چہرہ سمیت مکمل پردہ ہی شرعی پردہ ہے۔

اس تحریری بیان میں لکھا گیا ہے کہ شریعت کے خلاف جتنی بھی سائنسی اور عقلی افکار و نظریات ہیں وہ اُن تمام کو باطل سمجھتے ہیں بشمول ڈارون کا نظریہ ارتقا وغیرہ۔

اس تحریری بیان میں مزید لکھا گیا کہ اس سے پہلے جو انھوں نے اس بارے میں تقاریر کی ہیں وہ اُن سے برات کا اعلان کرتے ہیں اور آئندہ اگر شریعت کے خلاف کوئی بات یا تقریر ان کی جانب سے کی گئی تو وہ ’مجرم‘ ہوں گے۔

معافی نامے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ شریعت کی رُو سے عورتوں کی عقل مردوں سے کم ہے، اسی لیے وہ اس بات کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے متاثرہ اسسٹنٹ پروفیسر کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے اہلخانہ کئی دنوں سے ذہنی تناؤ کا شکار تھے اور وہ چند روز تک تو سکیورٹی گارڈز کے ساتھ اپنے کالج اور ٹیوشن سینٹر جاتے رہے ہیں۔ تاہم ان کے مطابق اب معاملہ حل ہو چکا ہے۔

تصویر،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
انھوں نے کہا کہ انھوں نے اپنی تقریر میں خواتین کے اسلام اور آئین میں حقوق کے بارے میں بات کی اگرچہ وہ دینی سکالر نہیں۔

واقعے کے پس منظر کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بنوں کی تحصیل ڈومیل میں مقامی علما نے چند ماہ پہلے ایک اعلان کیا تھا کہ خواتین محرم مرد کے بغیر بازار نہیں جا سکتی۔

اس اعلان کے بعد مقامی سطح پر یہ سیمینار منعقد کیا گیا، جس میں آئین کے رو سے انھوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین کے مطابق خواتین اپنی مرضی سے بازار جا سکتی ہیں، ان پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی اور اگر کوئی ان کو روکتا ہے تو وہ آئین اور قانون کی خلاف ورزی تصور ہو گا۔

علما کا ردعمل
اس سیمینار کے بعد ڈومیل میں پروفیسر کی تقریر پر مقامی علما کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں یہ کہا گیا کہ یہ ’دین اسلام کے خلاف نوجوانوں کی ذہن سازی‘ کی کوشش ہے۔

سوشل میڈیا پر مختلف اجتماعات میں علما نے اپنی تقاریر میں پروفیسر صاحب کی تقاریر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ پروفیسر ڈراون کے نظریہ ارتقا کا پرچار کرتا ہے۔

اس کے علاوہ الزام عائد کیا گیا کہ یہ تقاریر اسلامی اقدار اور علاقائی تمدن کے خلاف ہیں۔

ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ پروفیسر شیر علی پر اس سے پہلے بھی علمائے کرام کی جانب سے اعتراضات کیے گئے تھے۔

پروفیسر صاحب نے مزید دعویٰ کیا کہ سنہ 2019 میں جب وہ شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں تھے تو نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی کے نیچے دھماکہ خیز مواد لگا دیا تھا اور جب وہ راستے میں تھے تو بم پھٹنے سے وہ زخمی ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے ان کی ایک ٹانگ گھٹنے کے نیچے سے کاٹ دی گئی تھی۔ اب وہ مصنوعی ٹانگ کے ساتھ چلتے ہیں۔

ضلع بنوں اور ضلع لکی مروت میں اس سے قبل بھی خواتین کے بازاروں میں نکلنے پر پابندی عائد کی جاتی رہی ہے۔ عید یا کسی تہوار کے موقع پر خواتین کے پارک میں جانے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں سخت کارروائیوں کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔

متعلقہ تحاریر