عام انتخابات سے متعلق صدر مملکت کی دستخط شدہ دستاویز سپریم کورٹ میں پیش

عام انتخابات سے متعلق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی دستخط شدہ دستاویز سپریم کورٹ میں پیش کر دی گئی، صدر ہاوس کے گریڈ 22 کے افسر کے دستخطوں سے جواب جمع کروایا گیا۔

صدر مملکت کی جانب سے 8فروری کو انتخابات کی تاریخ دینے پر رضہ مند ظاہر کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے 8فروری کو انتخابات کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں پیش کیا جبکہ اٹارنی جنرل نے انتخابات سے متعلق نوٹیفکیشن کی کاپی سپریم کورٹ میں جمع کروا دی۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے انتخابات کی تاریخ بارے صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان ملاقات کے میٹنگ منٹس عدالت میں پیش کیے گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت نے دستخط کیوں نہیں کیے، ہم ایسی کوئی سپیس نہیں چھوڑنا چاہتے جس سے کل کوئی یہ کہے کہ میں نے دستخط نہیں کیے۔ صدر مملکت کی جانب سے آفیشلی تصدیق ہونی چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے گزشتہ روز ہونے والی ملاقات اور فیصلے سے عدالت کو آگاہ کر دیا۔ الیکشن کمیشن اور صدر مملکت کے درمیان رابطے کا ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کو بھی 11 فروری کی ہی تاریخ دی۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صدر نے اپنی رضامندی کا خط الگ سے دیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وہ رضا مندی کا خط کہاں ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ بھی آ جائے گا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایوان صدر یہاں سے کتنا دور ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایوانِ صدر سے دستخط شدہ دستاویز آ رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس معاملے میں کسی قسم کا ابہام نہیں چاہتے، کل کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی فریق سامنے آئے اور کہے مشاورتی عمل میں شامل نہیں تھا اور اگر کوئی ایوانِ صدر سے آنا چاہتا ہے تو ہم اسے بھی خوش آمدید کہتے ہیں۔

اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ برا نہ مانیے گا لیکن لوگوں کے ذہن تبدیل ہوتے رہتے ہیں، مشاورت کے ساتھ جو کچھ ہوا بہت اچھی بات ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ آئین کے آرٹیکل 48(5) میں واضح ہے کہ انتخابات کی تاریخ صدر دے گا، اس کے بعد کیس میں آئین کی تشریح کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

صدر مملکت کی جانب سے 8فروری کو انتخابات کی تاریخ دینے پر رضہ مند ظاہر کی گئی۔ سپریم کورٹ میں جمع کروایا گیا جواب صدر ہاوس کے گریڈ 22 کے افسر کے دستخطوں سے جمع کروایا گیا۔

الیکشن کمیشن نے 8فروری کو انتخابات کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں پیش کیا جبکہ اٹارنی جنرل نے انتخابات سے متعلق نوٹیفکیشن کی کاپی سپریم کورٹ میں جمع کروا دی۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا سب خوش ہیں اور کسی کوکوئی اعتراض تو نہیں، الیکشن کمیشن کے تمام ممبران نے متفقہ فیصلہ کیا اس میں کوئی ایشو تو نہیں، ہم چاہتے ہیں الیکشن ہوں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ امید کرتا ہوں آئندہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کسی نے بھی آئینی شق کا حوالہ نہیں دیا، اس نقطے پر بحث پھر کبھی کریں گے۔

چیف جسٹس نے صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز سے سوال کیا کہ کیا آپ کو کوئی اعتراض ہے الیکشن تاریخ پر؟ ایڈوکیٹ جنرلز نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

کیس کی سماعت کے دوران دو مرتبہ وقفہ کیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

متعلقہ تحاریر