بحریہ ٹاؤن جرمانہ کیس: سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع ’30 ارب سندھ حکومت، بیرون ملک سے آئے 35 ارب وفاق کو دیے جائیں گے‘

سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے جرمانے کی قسطیں جمع نہ کروانے کی درخواست خارج کرتے ہوئے 21 مارچ 2019 کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمع کروائے گئے کل 65 ارب میں سے بیرون ملک سے آئے 35 ارب روپے وفاقی حکومت اور بحریہ ٹاون کی جانب سے جمع 30 ارب روپے سندھ حکومت کو دیے جائیں گے جبکہ عمل نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔

بحریہ ٹاون عمل درآمد کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ’اکیس مارچ 2019 کا سپریم کورٹ کا فیصلہ بحریہ ٹاون کی رضامندی پر تھا اور بحریہ ٹاؤن نے سات سال میں 460 ارب روپے ادا کرنا تھے۔

’وکیل بحریہ ٹاؤن کے مطابق زمین مکمل نہ ملنے پر ادائیگیاں روکی گئیں اور انھوں نے سروے آف پاکستان کی رپورٹ پر اعتراض اٹھا دیا۔‘

ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ ’سروے کے دوران بحریہ ٹاؤن کی اپنی سروے ٹیم بھی ساتھ موجود تھی، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا باہمی رضامندی سے معاہدہ جو عدالتی حکم بن چکا ہے اس پر کوئی فریق خود سے عمل روک سکتا ہے۔اس سوال کا جواب منفی میں ہی ہے۔‘

عدالتی حکمنامے میں کہا گیا کہ ’کئی سال تک جلد سماعت کی درخواست دائر نہ کرنا فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے لیے کیا گیا، بظاہر بحریہ ٹاؤن زیادہ زمین پر قابض ہے، بحریہ ٹاؤن نے ادائیگیاں نہیں روکیں بلکہ مزید زمین پر بھی قبضہ کیا۔‘

حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ ’ہماری رائے میں یہ متعلقہ افسران کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا، ہمیں توقع ہے ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جو قانونی ایکشن کی یقین دہانی کروائی اس پر عمل ہو گا۔

’لوگ زمین کا ایک ٹکڑا خریدنے کے لیے عمر بھر کی جمع پونجی لگاتے ہیں۔ سب خرچ کرنے کے بعد لوگ ڈویلپر کے رحم کرم پر ہوتے ہیں۔ توقع ہے تمام حکومتیں الاٹیز کو تحفط دینے کے لیے اقدامات کریں گی۔‘

سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں یہ بھی کہا ہے کہ ’حکومتی سطح پر الاٹیز کا ریکارڈ نہ رکھے جانے پر لوگوں کو خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں ریکارڈ محفوظ کرنے کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔

’جس سے لوگ الاٹمنٹ سے متعلق خود معلومات لے سکتے ہیں اور حکومتی سطح پر ریکارڈ محفوظ رکھنے سے غیر ضروری عدالتی کارروائی کا خاتمہ ہو گا۔ حکومتی سطح پر ریکارڈ رکھنے سے ایک ہی پلاٹ کئی لوگوں کو آلاٹ کرنے کی مشق ختم ہو گی۔‘

حکم نامہ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ملک ریاض حسین کی جانب سے متفرق درخواستوں میں بتایا گیا ہے کہ نیب بھی معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے، اس عدالت کے لیے مناسب نہیں ہو گا کہ نیب میں زیر التوا معاملے پر آبزرویشن دے، ملک ریاض کی متفرق درخواست نمٹائی جاتی ہے۔‘

متعلقہ تحاریر