وفاقی کابینہ احتجاج کرنے والے سرکاری ملازمین کا کیا فیصلہ کرے گی؟
نیوز 360 کے نامہ نگار کے مطابق وفاقی کابینہ کے منگل کے روز ہونے والے اجلاس میں اِس معاملے کو حل کرنے کے لیے بعد ازبھرتی ملازمتوں کی منظوری دی جاسکتی گی۔
پاکستان کی وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر وزارتوں اور ڈویژنز میں 2016 کے بعد بھرتی کیے جانے والے 799 سرکاری ملازمین کی تقدیر اب بظاہر خطرے میں ہے۔
نیوز 360 کے نامہ نگار کے مطابق وفاقی کابینہ کے منگل کے روز ہونے والے اجلاس میں اِس معاملے کو حل کرنے کے لیے بعد ازبھرتی ملازمتوں کی منظوری دی جاسکتی گی۔
باخبر ذرائع کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے ادارہ جاتی اصلاحات (سی سی آئی آر) نے وفاقی حکومت کو کابینہ کی منظوری کے بغیر مختلف وزارتوں اور ڈویژنز میں2016 کے بعد سے بھرتی کیے گئے 799 سرکاری ملازمین کی تقرری سے متعلق معاملے کو حل کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
کمیٹی نے وفاقی کابینہ کو تجویز دی ہے کہ ایسی تقرریوں کی باقاعدہ طور پر سابقہ تاریخوں میں یا بیک ڈیٹ میں منظوری دیں یا پھر مسترد کر کے معاملے کو حل کیا جائے۔ کابینہ کے منگل کے روز مجوزہ اجلاس میں اس معاملے پر حتمی فیصلے کا امکان ہے۔
وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف فروغ نسیم نے کابینہ پر واضح کیا تھا کہ کابینہ کی منظوری کے بغیر تقرریوں کی توثیق سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہوگی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ کی منظوری کے بغیر 2016ء کے بعد سے بھرتی کیے گئے 799 سرکاری ملازمین کی تقرری پر ایک رپورٹ تیار کی گئی ہے جس کی وجہ سے وزارتوں اور ڈویژنز میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔
مختلف وزارتوں اور ڈویژنز میں تعینات اُن سرکاری ملازمین کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے ممکنہ طور پر سخت کارروائی کیے جانے کا امکان ہے۔
اس سے قبل وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے تمام وفاقی سکریٹریز اور ڈویژنوں کے سربراہان کو ایک خط لکھا ہے۔
خط میں ہدایت کی گئی کہ 2016ء سے غیرقانونی بھرتی کیے گئے ملازمین کی فہرست 30 اپریل تک فراہم کی جائے تاکہ اُنہیں غیرقانون قرار دیا جاسکے۔
اعظم خان نے کہا کہ وفاقی کابینہ اور حکومت کی منظوری کے بغیر کی گئیں تمام تقرریاں غیر قانونی ہیں۔
چوبیس اپریل 2020ء کو لکھے گئے خط کے مطابق اس فہرست میں ایسی تمام تقرریوں کو بھی شامل کیا جائے گا جو وفاقی کابینہ کے اختیارات کے تحت کسی وفاقی وزیر یا سیکریٹری کو دیئے گئے تھے۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی تھی جس نے ایسی تقرریوں کو "کالعدم” قرار دیا تھا۔
23 اپریل 2020ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ہمیں کوئی شک نہیں ہے کہ جواب دہندہ نمبر ایک کی بحیثیت ممبر اور چیئرپرسن دوبارہ تقرری اور جوابدہ نمبر 2 اور جوابدہ نمبر 3 کی ابتدائی تقرری وفاقی حکومت نے نہیں کی تھی۔
نیوز 360 کو موصول دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ وفاقی حکومت میں سنہ 2016ء سے غیرقانونی تقرریوں کی نشاندہی کرنے کے لیے سیکریٹری، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، ایڈیشنل سیکریٹری، کابینہ ڈویژن، قانون اور انصاف ڈویژن پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
اس کمیٹی نے دستیاب ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد 799 افراد کی تقرریوں کی نشاندہی کی۔ 799 تقرریوں میں سے 500 ائیرپورٹ سکیورٹی فورس (اے ایس ایف) اور ایوی ایشن ڈویژن سے، جبکہ دیگر 299 مختلف ڈویژنوں یا محکموں سے متعلق ہیں۔
دستاویزات کے مطابق اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سی سی آئی آر کو سفارش کی تھی کہ اے ایس ایف کے 500 کیسز (ڈائریکٹر جنرل، اے ایس ایف کے عہدے کے علاوہ) بی ایس 17، 18، 19 وغیرہ میں باقاعدہ تقرریوں سے متعلق ہوں۔
اے ایس جی ایکٹ 1975ء کے تحت یہ تقرری وفاقی حکومت کی منظوری سے کی جائے گی جس کی توثیق کی جاسکتی ہے۔
اسی طرح ایوی ایشن ڈویژن کو اے ایس ایف ایکٹ 1975ء میں ترمیم کرنی چاہیے تاکہ وفاقی کابینہ کو بی ایس 17 اور اس سے اوپر کی باضابطہ تقرریوں سے روکنا ہو۔
تاہم اے ایس ایف کے سربراہ کے عہدے کو وفاقی کابینہ کے دائرہ کار میں رکھا جاسکتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سفارش کی ہے کہ تمام ڈویژنز کو چوکس رہنا چاہیے تاکہ تقرری صرف مجاز اتھارٹی کے ذریعے ہی کی جائے۔