جب 16 سال بعد کراچی میں بس کا سفر کیا
بس یوں سمجھیے کہ بس نہ تھی کاٹھ کباڑ کا انبار تھی۔ ہم نے سوچا کہ بس میں چڑھ کے غلطی کردی ہے لیکن اب بیٹھ ہی گئی تھی تو صرف دعا ہی آخری سہارا تھا۔ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ہچکولے کھاتی بس میں بیٹھ کر برا حال ہوگیا تھا۔
بس بھئی بس۔۔۔
ایک ماہ کی چھٹی کےبعد مجھےدفتردوبارہ جانا تھا۔ لیکن شومئی قسمت کہ ڈرائیور صاحب دغا دے گئے اور طبیعت خرابی کا میسج کرکے موبائل ہی بند کردیا۔ ہم نے بھی سوچا کہ آج پرانی یادیں تازہ کرتے ہیں۔
گھر سے نکلی اسٹاپ پر پہنچ کر بس کا انتظار کرنے لگی لیکن بھئی یہ کیا؟؟؟ بسیں آتو رہی تھیں لیکن اُن میں چڑھنے کی ہمت ہم میں تو نہ تھی۔
ہمت جمع ہوتی بھی کیسے؟ بسوں کے دروازوں پر مسافر ایسے لٹکے ہوئے تھے جیسے انگوروں کا گچھہ۔ یہ دیکھ کر میرے تو ہوش ہی اڑ گئے۔ کافی دیر انتظار کے بعد ایک خالی بس آئی اور میں نے اُسے روکنے کے لئے اشارہ کیا۔
ڈرائیور کچھ زیادہ ہی جلدی میں تھا بس روکی نہیں اور کنڈیکٹر نے کہا بیٹھ جاؤ جلدی۔ میں بھی لشتم پشتم اُس میں سوار ہوگئی۔ جتنی تیزی سے بس ہمارے چڑھنے سے پہلے دوڑ رہی تھی اس کے بعد تو سمجھیں سڑک پر رینگنے ہی لگی۔
جب پیچھے بیٹھے مسافروں نے آواز لگائی تو رفتار کچھ تیز ہوئی۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد بس والے نے اسپیڈ بڑھائی لیکن وہ شائد بھول گیا کہ اس کی گاڑی سولہویں صدی میں تیار ہوئی تھی۔ انجر پنجر بلکل ڈھیلے ہوچکے تھے اور انجن میں سے ایسی آوازیں آرہی تھیں جیسے کوئی مرغ نیمِ بسمل ہو۔
بس یوں سمجھیے کہ بس نہ تھی کاٹھ کباڑ کا انبار تھی۔ ہم نے سوچا کہ بس میں چڑھ کے غلطی کردی ہے لیکن اب بیٹھ ہی گئی تھی تو صرف دعا ہی آخری سہارا تھا۔ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ہچکولے کھاتی بس میں بیٹھ کر برا حال ہوگیا تھا۔
اِس قدر جھٹکے کہ خدا کی پناہ اوپر سے ڈرائیور صاحب کے بار بار بریک لگانے سے میری تو چولیں ہی ہل گئیں۔ میں تو حیران تھی کہ بسوں میں چڑھنے والے مسافر کتنی مہارت سے بس کا سفر کررہے تھے۔
ہمیں لگا کہ شائد ہم ہی ”آؤٹ آف فیشن‘‘ ہوچکے ہیں یا پھر بس میں سفر کرنے کے قابل نہیں رہے۔ اللہ اللہ کر کے چند کلومیٹر کا سفر ایک گھنٹے میں ختم ہوا۔ بس سے اتری تو لگا کہ جسم میں جان ہی نہیں ہے۔
ایسے سفر سے تو میں بھر پائی اور توبہ کرلی کہ اب بس کا سفر نہیں کروں گی۔ لیکن بھئی ایک بات ہے کہ کراچی کے عوام جانباز ہیں۔ جانباز بھی ایسے کہ ایسی بسوں میں سفر کرتے ہیں جن پر چڑھ کر انسان کی انتڑیاں ہی باہر آجائیں۔
سندھ حکومت نے 13 سال کراچی پر راج کیا لیکن ٹریفک کے نظام میں کوئی بہتری نہ آسکی۔ بلوم برگ نےکراچی کے ٹریفک نظام کو بدترین نظام قرار دیا ہے۔ جب یہ خبر ہیڈ لائن میں چلتے دیکھی اور اُس کے ساتھ جو مناظر ٹی وی اسکرین پر دیکھے وہ مجھے ”فلیش بیک‘‘ میں لے گئے۔
یعنی وہ وقت یاد آگیا جب کالج اور یونیورسٹی جانے کے لئے بس میں سفر کرتے تھے۔ یہ سفر انگریزی والا سفر ہوتا تھا۔ صبح صبح دھلے دھلائے کپڑے پہن کر گھر سے جاتے تھے اور واپسی میں دھول مٹی سے اٹے ہوئے گھرآتے تھے۔
یہ2004 کی بات ہے جب شہر میں گاڑیاں کم اور بسیں زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ اب 2020 چل رہا ہے یعنی 16 برس گزر گئے لیکن بس کا سفر اب بھی وہی ہے یعنی انگریزی والا سفر۔ اگر سمجھ نہ آئے تو ضمیر جعفری مرحوم کی نظم پڑھ لیجیے گا۔
آداب عرض ہے