بچھوؤں پر تحقیق کرنے والا پاکستانی حکومتی معاونت کا منتظر
پشاور کے صاحبزاہ محمد جواد بچھوؤں پر ریسرچ کرنے والے پہلے پی ایچ ڈی ڈاکٹر بننے والے ہیں۔ انہیں ایچ ای سی اور حکومت پاکستان کی معاونت درکار ہے
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور کے صاحبزاہ محمد جواد بچھوؤں پر ریسرچ کرنے والے پہلے پاکستانی تحقیق کار بن گئے ہیں۔ لیکن محمد جواد اِس تحقیق کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں جس کے لیے اُنہیں ایچ ای سی اور حکومت پاکستان کی معاونت درکار ہے۔
پشاور کے صاحبزادہ محمد جواد پی ایچ ڈی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اس وقت اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں زولوجی کے پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ ہیں۔ انہوں نے ایک انگریزی اخبار میں بچھوؤں کی نسل، افزائش اور ان کے فوائد سے متعلق ایک آرٹیکل پڑھا۔ جس کے بعد جواد کی دلچسپی پیدا ہوئی اور آج وہ خیبرپختونخواہ میں بچھوؤں پر ریسرچ کرنے والے پہلے پی ایچ ڈی ڈاکٹر بننے جا رہے ہیں۔
جواد کے مطابق ان کے لیے یہ ٹاپک کسی چیلنج سے کم نہیں۔ پورے پاکستان میں بچھوؤں سے متعلق ماہرین کی تعداد انتہائی کم ہونے کے باوجود بھی اس موضوع کا انتخاب اور اس پر کام کیا۔
جواد کے پاس اس وقت مختلف اقسام کے 600 سے زائد بچھو موجود ہیں۔ ان بچھوؤں کو لیبارٹری نہ ہونے کے باعث گھر کے فریج میں رکھا گیا ہے۔
جواد کا کہنا ہے کہ دنیا میں بچھوؤں کی 2 ہزار 549 اقسام پائی جاتی ہیں۔ جبکہ بچھوؤں کے 20 خاندان ہیں۔ دنیا کے دو ممالک انٹارکٹیکا اور نیوزی لینڈ کے علاوہ یہ پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ بچھوؤں کے رہنے کیلئے فوڈ چین، درجہ حرارت وغیرہ ہر جگہ ایک جیسا نہیں بلکہ مختلف رہتا ہے۔ بچھوؤں کی مختلف اقسام کو اکھٹا کرنا بھی آسان کام نہیں ہے۔ اس لیے جواد کو خیبرپختونخواہ کے علاوہ گلگت بلتستان بھی جانا پڑتا ہے۔ جبکہ بچھوؤں کے کاٹنے سمیت کئی خطرات بھی موجود رہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مردانہ پیشے نے عورت کو بھی مرد بنا دیا
اپنے سپروائزر کے علاوہ انہیں برازیل، ترکی اور امریکا کے کچھ پروفیسرز کے ساتھ بھی رابطہ رکھنا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنے کام میں مزید بہتری لاسکیں۔ جواد اپنی ریسرچ کے لیے پشاور کے علاوہ لاہور اور کراچی سمیت پورے ملک کے دورے کرتے ہیں۔ جبکہ انٹرنیٹ کا استعمال کر کے بھی اپنی ریسرچ کے لیے مواد اکھٹا کرتے ہیں۔ وہ اپنے موضوع کے لیے جدید علوم اور تحقیقات سے باخبر رہنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
خیبرپختونخواہ میں اس سے پہلے کسی نے اس موضوع پر کام نہیں کیا۔ نہ ہی صوبے میں بچھوؤں پر تحقیق کے لیے کوئی لیبارٹری موجود ہے۔ لہٰذا جواد کو اپنے ٹاپک سے متعلق اینالیسز کیلئے بیرون ملک جانا لازمی ہے۔ انہیں نیویارک، امریکا کی ایک یونیورسٹی کی جانب سے ریسرچ مکمل کرنے کے لیے 6 ماہ کا اجازت نامہ بھی ملا ہے۔ تاہم جواد کو باہر بجھوانے کے لیے ایچ ای سی اور حکومت پاکستان کی معاونت درکار ہے۔
بچھوؤں پر تحقیق کے لیے ان کے پاس ٹولز اور دیگر ضروریات بھی موجود نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا کوئی نظام نہیں کہ بچھوؤں سے زہر نکال کر اس سے فائدہ لیا جاسکے۔ حالانکہ پاکستان، بھارت، افغانستان اور ایران میں نایاب قسم کے بچھو پائے جاتے ہیں۔ جبکہ یہاں سے بچھو ٹریڈ کے ذریعے یورپ و دیگر ممالک کو بجھوا کر وہاں تجربات کر کے ان سے کئی فوائد حاصل کیے جارہے ہیں۔
جواد کئی جگہ درس و تدریس کا کام بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں ایک لیبارٹری فراہم کی جائے تو کئی طلبہ کو بچھوؤں کی نسل، افزائش اور اقسام سے متعلق آگاہ کیا جاسکے گا۔ اور ان کی ریسرچ دوسروں کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوگی۔
انہوں نے حکومت سے تحقیق میں معاونت کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے لیے بیرون ملک بجھوایا جائے۔ کیونکہ پوری دنیا میں بچھوؤں کے زہر پر کام ہو رہا ہے۔ اگر حکومت نے انکے اس موضوع کو سنجیدہ لیا تو ایک لیبارٹری تشکیل دے کر خیبرپختونخواہ دنیا کو بچھوؤں کا زہر برآمد کرنے والا بہت بڑا رکن بن سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے