ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں، ہم سا وحشی جنگل کے درندوں میں نہیں

کبھی سوچا ہے کہ  کیا فریاد اور التجا کی ہوگی اُس مظلوم ماں نے چیخ چیخ کر فریاد کی ہوگی کہ "میری بوٹیاں نوچ لو مگر میری بچی کو چھوڑ دو‘‘ اِس حیوانیت کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ ہے عوامی سزا چوک پہ لٹکاؤ ان کو‏...

پاکستان میں ‏پھر ایک بچی کا صوبہ سندھ کے شہر کشمور میں ریپ ہو گیا۔ کیا کسی کو اس بچی کا نام پتا ہے؟
اُس کا نام ہے علیشا اور نام کے معنی ہے "خدا کی طرف سے محفوظ‘‘ شاید یہ بات ماں باپ کو معلوم نا ہو اُن کی بچی ملک خداداد پاکستان میں سب سے غیر محفوظ بچی ہوگی۔

جب سے ویڈیو میں علیشا کو دیکھا ہے جو خود رو کہ بتا رہی ہے کہ انکل نے میرے ساتھ بدتمیزی کی ہے بس یہی دعا نکلتی ہےکہ ”اے میرے مالک غارت کر دے ایسے درندوں اور جانوروں کو‘‘۔یہ مٹی کب تک ان معصوم بچیوں پر ظلم  ہوتا دیکھے گی؟ کس قدر خوفزدہ حالت میں ہے وہ بچی۔

اب کوئی آسمان کیوں نہیں پھٹ رہا؟ کوئی شور کیوں نہیں ہورہا؟ کوئی بریکنگ نہیں بن رہی؟ اب کوئی وزیراعظم منہ پہ ہاتھ پھیر کہ یہ کیوں نہیں کہہ رہا کہ اب اس ملک میں بچیوں کی عزت دری کرنے والے کو نہیں چھوڑونگا؟ اب کوئی شیر… تیر.. بلّا نہیں دیکھ رہا؟ اب کوئی سیاست دان بھی ہمدردی نہیں‏ کررہا، اب کوئی رہنما نہیں مل رہا، اب کوئی دلاسے نہیں دے رہا، اب کوئی اینکر چیخ چیخ کر ریٹنگ بڑھانے کی کوشش نہیں کررہا، اب کسی تحقیقات کا شور نہیں ہے… آخر کب تک…. اور کیوں… خدا کے لئے قحبہ خانے کھول دو اس ملک میں مگر اِن بچیوں کو بچا لو..اب اس دیس میں ہر بیٹی کے باپ کا دم گھٹنے لگا ہے۔ ساری رات نیند نہیں آئی کیوں کے علیشا کی آواز کان کے پردوں سے ٹکرائے جا رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

طلاق۔۔ طلاق۔۔ طلاق۔۔

یاد رکھنا چاہیے عذاب آئے گا عذاب… یہ بچیاں روزِ محشر جب خدا کو اپنا دکھ بیان کریں گی…آسمان روئے گا…زمین روئے گی…اس کائنات کا ہر زرہ چیخے گا…مگر کسی بھی زمہ دار کو آنسو بھی نصیب نہیں ہوں گے….بدبختوں…اگر چار آدمی چوک پہ لٹکا دیے ہوتے تو آج یہ بچی شائد بچ جاتی۔

آج دل کٹ گیا ہے سمجھ نہیں آرہا ہم کن حیوانوں کہ درمیان رہ رہے ہیں؟ کبھی موٹر وے پہ ماں کا بچوں کے سامنے ریپ کر دیا جاتا ہے۔ ملزم پکڑے نہیں جاتے اگر پکڑ لئےجائیں تو سزا نہیں ہوتی کبھی محلے کا دکاندار بچی کا ریپ کر کے اسے مار دیتا ہے اور پھر سارے انسانی حقوق کے علمبردار اپنا اپنا منجن بیچنا شروع ہوجاتے ہیں کہ سزا کیا ہونی چاہئے اور کیسے ہونی چاہیے۔

کبھی سوچا ہے کہ  کیا فریاد اور التجا کی ہوگی اُس مظلوم ماں نے چیخ چیخ کر فریاد کی ہوگی کہ "میری بوٹیاں نوچ لو مگر میری بچی کو چھوڑ دو‘‘ اِس حیوانیت کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ ہے عوامی سزا چوک پہ لٹکاؤ ان کو‏…

مذہبی اختلافات میں ایک دوسرے پہ کفر کے فتوے دینے والے آج کہاں ہیں؟

مزار قائد کی بےحرمتی پر تھانے کا گھیراؤ کرنے والے آج کس تھانے کہ باہر احتجاج کر رہے ہیں؟

سانحہ ساہیوال پہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ والے کہاں ہیں؟ اگر آپ سب سکون سے سو رہے ہیں توسمجھیں کہ آپ مر چکے ہیں۔

ان تمام حالات کے باوجود اگر میں اے ایس آئی محمد بخش کے لئے نہ لکھوں تو یہ اُس کے ساتھ زیادتی ہوگی اللّہ پاک آپ کو اور آپ کی بچی کو اُس کا اجر ضرور دے گا۔ ایک باپ ہوتے ہوئے آپ نے اپنی بیٹی اُن درندوں کے پاس بھیج دی تاکہ ایک اور بچی بازیاب کرائی جاسکے اور اُن کی گرفتاری عمل میں لائی جائے۔

محمد بخش آپ کی اِس ہمت، حوصلے، جواں مردی اور سب سے بڑھ کر اِس "سوچ” پہ قوم آپ کو سلوٹ پیش کرتی ہے۔

محمد بخش آپ نے واقعی اپنے نام کی لاج رکھ لی ہے۔ آپ صحیح معنوں میں قوم کے ہیرو ہیں

(ایک غمزدہ باپ)

سانحہ_کشمور

متعلقہ تحاریر