یوٹرن خان” کی اصطلاح کی موجد کا یوٹرن

اب مریم نواز کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے بات ہوسکتی ہے، لیکن حکومت سے نہیں

"یوٹرن خان” کی اصطلاح متعارف کرانے والی اپوزیشن جمارت کی رہنما نے کل انٹرویو کے دوران ایسا بیان دیا ہے جسے اُن کے مخالفین یو ٹرن کا نام دے رہے ہیں۔ فوج سے مذاکرات کرنے کا انکار کرنے والی مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے اچانک موقف تبدیل کر لیاہے۔ اب ان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے بات ہوسکتی ہے لیکن حکومت سے نہیں ہو سکتی ہے۔

مریم نواز پہلے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے تیار نہیں تھیں، لیکن اب مان گئی ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے بات ہوسکتی ہے لیکن شرط یہی ہے کہ حکومت کو گھر بھیجا جائے۔ بات اب چھپ چھپا کر نہیں بلکہ عوام کے سامنے ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اُن کے قریبی ساتھیوں سے رابطے کیے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ”میرے ارد گرد موجو کئی لوگوں سے رابطے کیے گئے، لیکن کسی نے براہ راست مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔‘‘

مریم نواز نے کہا کہ فوج میرا ادارہ ہے بات ضرور کریں گے لیکن آئین کے دائرہ کار میں رہ کر۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مذاکرات کے آغاز پر غور کیا جا سکتا ہے۔

مریم نواز کا یہ بیان گواہی دے رہا ہے کہ وہ والد (نواز شریف) کا اندازِ سیاست چھوڑ کر چچا (شہباز شریف) کا طریقہ اپنا رہی ہیں۔ کیونکہ نواز شریف ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات سے انکار کرتے رہے ہیں جبکہ شہباز شریف نے ہمیشہ مفاہمت کی سیاست اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔

اس حوالے سے سینئر تجزیہ کار امتیاز گل نے نیوز360 سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز کے بیان کو مضحکہ خیر قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ مریم نوا مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر ہیں۔ وہ کوئی رکن اسمبلی نہیں ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ انہوں نے یہ بیان کس حیثیت سے دیا؟

امتیاز گل نے کہا کہ مریم نواز کا مطالبہ غیر آئینی ہے۔ یہ چاہتی ہیں کہ منتخب حکومت ہٹا کر حکومت ان کے حوالے کردی جائے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات اور کیا ہوگی؟

متعلقہ تحاریر