سینئر صحافیوں کی ٹوئٹس سے غیر یقینی صورتحال

سوشل میڈیا صارفین یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ وہ دو ممتاز ترین صحافیوں میں سے کس کے ٹوئٹس پر یقین کریں۔

پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی پیر کی صبح سے ہی سیاست سے متعلق خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ آج صبح سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کے خاوند کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کی مزار قائد کے احاطے میں نعرے بازی کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کیے جانے اور اُس کے بعد گرفتاری کی خبریں آرہی تھیں۔

اِس معاملے میں سرکاری سطح پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے کہ علی الصبح مریم نواز کے کمرے کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہونے کا حکم پولیس کو کس نے دیا؟

لیکن پاکستان کے باخبر صحافیوں میں شامل دو سینئر ترین صحافیوں کی ٹوئٹس سامنے آئی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ ایف آر درج کرانے اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کی گرفتاری کے پیچھے کیا محرکات تھے۔

پاکستان کے نجی ٹی وی چینل (جیو نیوز) کے میزبان اور سینئر صحافی حامد میر نے ایک ٹوئٹ کی جس میں اُنہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو آگاہ کیا ہے کہ سندھ کے آئی جی پولیس کو رات 4 بجے مبینہ طور پر رینجرز نے اغوا کیا اور اُنہیں سیکٹر کمانڈر کے دفتر لے جایا گیا جہاں ایڈشنل آئی جی پہلے سے موجود تھے۔ حامد میر کے ٹوئٹ کے مطابق وہاں آئی جی سندھ سے زبردستی محمد صفدر کو گرفتارکرنے کے احکامات جاری کروائے گئے۔

اِس ٹوئٹ کے کچھ ہی دیر بعد پاکستان کے ایک اور سینئر ترین صحافی اور دنیا میڈیا گروپ کے صدر کامران خان نے بھی چند ٹوئٹس کی ہیں۔

اپنے ٹوئٹر پیغامات میں کامران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جس ولولے کا اظہار کر رہے تھے وہ اب اُسی ولولے کے ساتھ یا تو وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا استعفیٰ منظور کریں یا پھر آئی جی کو اغوا کرنے والوں کو سزا دلوائیں۔

اپنے ایک اور ٹوئٹر پیغام میں کامران خان نے لکھا کہ ”پی ڈی ایم اندرونی کھیل شروع مریم بی بی آئندہ سندھ آنے کی دعوت سوچ کر قبول فرمائیں۔ ناقابل تردید زرائع بتاتے ہیں کہ آئی جی سندھ مشتاق مہر ہنستے کھیلتے کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے تمام مراحل میں اپنے سینئر اہلکاروں کے ساتھ شریک رہے۔ اغوا وغیرہ کی کہانی مریم بی بی کی تسلی کیلئے ہے۔

دو مختلف میڈیا گروپس سے تعلق رکھنے والے اِن دو سینئر صحافیوں کی ٹوئٹس نے موجودہ صورتحال میں میڈیا کی سطح پر سوشل میڈیا صارفین کیلئے غیر یقینی صورتحال پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا اور لوگوں کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ کس کی بات پر یقین کریں اور کس بات پر نہیں۔

متعلقہ تحاریر