علی ظفر کا میشاء شفیع کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ تاخیر کا شکار

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور نامور شخصیات کے حلقوں میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ اِس نوعیت کے مقدمات کے فیصلے جلد از جلد ہونے چاہییں یا پھر ملک میں زرتلافی کے قانون کو جامع انداز میں نافذ کیا جانا چاہیے

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی سیشن کورٹ نے حال ہی میں مشہور گلوکار علی ظفر کے گلوکارہ میشا شفیع کے خلاف ہتکِ عزت کے مقدمے کی کارروائی کو روکنے کی درخواست پر سماعت کے دوران فریقین کے وکلا کے دلائل سنے کے بعد میشاء شفیع کی درخواست مسترد کردی اور آئندہ سماعت پر گواہان کو بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کر لیا ہے۔

گلوکارہ میشا شفیع نے لاہور کی سیشن کورٹ میں علی ظفر کی جانب سے ہتک عزت کے مقدمے کی کارروائی روکنے کے لیے درخواست دائر کی تھی جس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج یاسر حسین نے کی تھی۔

عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے میشاء شفیع کا مؤقف تھا کہ سائبر کرائم کی ایف آئی آر  کا فیصلہ ہونے تک علی ظفر کے ہتک عزت کے دعوے پر کارروائی روکی جائے کیونکہ مقدمہ درج ہونے سے گواہ خوف کا شکار ہیں۔

علی ظفر کا مؤقف تھا کہ اپنے خلاف ہتک عزت کے مقدمے میں میشاء شفیع تاخیری حربے استعمال کررہی ہیں۔ علی ظفر کی طرف سے ان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت میشاء شفیع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ہتک عزت کے دعوے پر کارروائی مکمل کرے۔

واضح رہے کہ علی ظفر نے اپنے خلاف سوشل میڈیا پر کردار کشی کے الزامات کے تحت وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم ونگ میں میشاء شفیع اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ درج کرا رکھا ہے۔

گلوکارہ میشاء شفیع نے دنیا بھر میں چلنے والی می ٹو مہم کے دوران گلوکار علی ظفر پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ اِس کے بعد میشاء شفیع کے ہمدردوں نے سوشل میڈیا پر اُن کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔ یہ مقدمہ عدالت میں گیا اور گواہان کے بیانات اور شواہد کے جائزے کے بعد فیصلہ علی ظفرکے حق میں دیا گیا۔ اِس کے بعد علی ظفر نے میشاء شفیع اور اُن کے دوستوں کے خلاف ہتکِ عزت کا دعوی کیا جنہوں نے اُن کو سوشل میڈیا پر بدنام کیا اور کردار کشی کی تھی۔ کیونکہ اُن کے خلاف مقدمہ غلط ثابت ہوا تھا لہذا اُن کا موقف ہے کہ اُن کے خلاف سوشل میڈیا پر کی جانے والی باتیں جھوٹ پر مبنی تھیں جو کہ سائبر کرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔

اِس مقدمے کی کارروائی رکوانے کے لیے میشاء شفیع نے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی جو مسترد کر دی گئی۔

علی ظفر پر الزام عائد کیے جانے سے لے کر اب تک تقریباً دو برس گزر چکے ہیں اور اِس دوران کئی بین الاقوامی برانڈز نے علی ظفر کے ساتھ کام کرنے سے انکار کیا تھا جس کی وجہ سے اُنہیں کافی مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔

اب سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور نامور شخصیات کے حلقوں میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ اِس نوعیت کے مقدمات کے فیصلے جلد از جلد ہونے چاہییں یا پھر ملک میں زرتلافی کے قانون کو جامع انداز میں نافذ کیا جانا چاہیے۔

علی ظفر کی وکیلہ بیرسٹر امبرین قریشی نے یہی سوال اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر کیا ہے جس میں اُنہوں نے کہا ہے کہ ایف آئی اے کی تحقیقات میں قصور وار ثابت ہونے اور ضمانت کی درخواست علی ظفر کے وکیل کی رضامندی سے منظور ہو جانے کے بعد لینا غنی اور دیگر 5 افراد کے پاس 27 تاریخ کو میشاء شفیع کے خلاف مقدمے کی سماعت پر پیش نا ہونے کے لیے اب کوئی عزر باقی نہیں بچتا ہے۔

متعلقہ تحاریر