سینیئر صحافیوں کی خبر یا انا کا مسئلہ؟

پاکستان کے دو سینیئر صحافیوں کی متضاد ٹوئٹس کیا اُن کی انا کا مسئلہ بن گیا ہے؟

 نیوز 360 کی یہ خبر دراصل اپنی ہی ایک دن پہلے کی خبر کا فالو اپ یا اپ ڈیٹ ہے جس میں ملک کے دو سینیئر صحافیوں کی ٹوئٹس اب انا کا مسئلہ بنتی دکھائی دے رہی ہیں۔
گذشتہ روز جیو نیوز سے وابسطہ سینیئر صحافی حامد میر نے ایک دنیا نیوز گروپ کے صدر کامران خان کی اُس ٹوئٹ کو کوٹ کیا جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ پولیس کے آئی جی کے اغوا کا معاملہ مریم بی بی کی تسلی کے لیے ہے۔

اپنے کوٹ ٹوئٹ میں حامد میر نے کہا ” ہاں جی! کچھ کہیں گے آپ یا نہیں؟ آپکے ناقابل تردید ذرائع نے کل مجھے بھی فون کیا تھا اور وہی کہا جو آپ نے بغیر تصدیق کئے لکھ مارا میں نے انکو جو جواب دیا تھا وہ ذرا انہی سے پوچھ لیجیئے اور آئندہ اپنے ان ذرائع کے کہنے پر میری خبر کی تردید مت کیجئے گا‘‘۔

سوشل میڈیا اور صحافتی حلقوں میں اِس موضوع پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ حامد میر کی خبر کی تصدیق تو سندھ پولیس کے اعلی افسران کی چھٹی کی درخواستوں کے ساتھ ہو گئی اور اُس کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس نے حامد میر کی خبر کو کافی حد تک سچ ثابت کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے
سینئر صحافیوں کی ٹوئٹس سے غیر یقینی صورتحال

لیکن اُنہوں نے جب کامران خان کے پرانے ٹوئٹ کو کوٹ کیا تو اُس پر مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ اِس عمل پر تنقید کرے والے سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ خبر کی تصدیق کے بعد کسی کو تحمکانہ لہجے میں داد وصول کرنا یا ٹیگ کرنا حامد میر جیسے صحافی کو زیب نہیں دیتا۔

اِس عمل کے حق میں رائے دینے والے سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ کامران خان کے ساتھ سوشل میڈیا پر اُن کی خبر کے غلط ثابت ہونے پر اِس سے زیادہ برے سلوک کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ صحافی کی عزت اس کی مستند خبر سے ہی ہوتی ہے۔
اِس صورتحال پر سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال اب خبر سے آگے بڑھ کر انا کا مسئلہ بنتی جارہی ہے۔

متعلقہ تحاریر