مالی سال 2022-23 کا 58 فیصد بجٹ قرضوں کی ادائیگی اور دفاع کے لیے مختص

معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بجٹ کا بڑا حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگی اور دفاع پر خرچ ہو جائے گا ، باقی 42 فیصد بجٹ میں غریبوں کے لیے کیا ہو گا؟

مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے 9502 ارب کا بجٹ پیش کردیا ، بجٹ کا 58  فیصد حصہ دفاع اور قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیا گیا ہے جس کے مطلب یہ ہےکہ بجٹ کا صرف 42 فیصد حصہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی پر خرچ ہوگا۔

حکومت کی جانب سے آئندہ مالی 2022-23 کا بجٹ پیش کردیا گیا جس کے مطابق بجٹ میں دفاع کے لیے 1523 روپے مختص کیے گئے جبکہ قرض اور سود کی ادائیگی کے لیے 3950 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

5 پاکستانی بینکس کی آؤٹ لک منفی، سرمایہ کاروں کا پیسہ ڈوبنے کا خدشہ

آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش، دفاع کیلئے 1523، تعلیم کیلئے 109 ارب روپے مختص

قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے 3950 ارب روپے مختص کیے گئے ، جن میں اندرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 3439 ارب روپے ہیں جبکہ 511 ارب روپے غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے رکھے گئے ہیں۔

آئندہ مالی سال 2022-23 کے بجٹ میں دفاع کے لیے 1523 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔

1523 ارب روپے کے دفاعی بجٹ میں بری فوج کے لیے 724 ارب روپے سے زائد رقم رکھنے کی تجویز ہے ، جبکہ گزشتہ اس مد میں 730 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔

1523 ارب روپے کے دفاعی بجٹ میں پاک فضائیہ کے لیے 323 ارب 71 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے،۔

گزشتہ مالی سال کے دوران پاک فضائیہ کے لیے 302 ارب 91 کروڑ روپے رکھے گئے تھے۔

دفاعی بجٹ میں پاک بحریہ کے لیے 165 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران یہ رقم 158 ارب روپے تھے۔

معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بجٹ کا بڑا حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگی اور دفاع پر خرچ ہو جائے گا ، باقی 42 فیصد بچے گا جو دیگر ترقیاتی پروگرامز کے لیے ہوگا ، اس میں غریبوں کے لیے کیا ہو گا؟ سوچنے کی بات یہ ہے۔ مہنگائی نے ویسے ہی عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی فراغ دلی کا مظاہرہ یہ ہےکہ رمضان پیکج کے لیے 5 ارب روپے اور یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن پر سبسڈی دینے کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے گئے ، یعنی 17 ارب روپے کی کل رقم کو 22 کروڑ عوام پر تقسیم کیا جائے گا تو فی شخص کو 77 روپے کی سبسڈی ملے گی ایک سال کے اندر۔ حکمرانوں کے جھوٹ بولنے اور دروغ گوئی کی  مثال شائد ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ہمیں ملے۔ شرم ان کے پاس سے نہیں گزرتی ہے ، عوام کے درد کی باتیں کرتے ہوئے ان کی زبانیں نہیں تھکتی ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے لیے 293 ارب روپے رکھے گئے یہ شائد اس لیے رکھے گئے ہیں کہ اس رقم میں کرپشن کرنا آسان ہوتا ہے اور اپنے من پسند افراد میں اس کی تقسیم آسانی سے ممکن ہوتی ہے۔

متعلقہ تحاریر