سی این جی ایسوسی ایشن کی پیٹرول اور ڈیزل سے کم قیمت  پر گیس  فراہم کرنے پیشکش

سی این جی انڈسٹری،  پیٹرول کے مقابلے میں 43 فیصد اور ڈیزل کے مقابلے میں 55 فیصد سستی ہے

آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئرمین  غیاث عبداللہ پراچہ کا کہنا ہے کہ سی این جی انڈسٹری،  پیٹرول کے مقابلے میں 43 فیصد اور ڈیزل کے مقابلے میں 55 فیصد سستی ہے۔

نیوز 360 کو  دیئے گئے ایک انٹرویو میں  آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئرمین  غیاث عبداللہ پراچہ  نے کمپریسڈ نیچرل گیس  انڈسٹری نے پیٹرول کےمقابلے میں 43فیصد اور ڈیزل کے مقابلے میں 55فیصد سستے نرخ پر ماحول دوست فیول فوری طور پر مہیا کرنے کی پیشکش کردی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

5 پاکستانی بینکس کی آؤٹ لک منفی، سرمایہ کاروں کا پیسہ ڈوبنے کا خدشہ

غیاث عبداللہ پراچہ نے  انٹرویو کے دوران  حکومت کو پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت سی این جی انڈسٹری کو باہر سے گیس لانے اور خریدنے میں اگر سہولت مہیا کرے تو انڈسٹری پیٹرول کے مقابلے میں 43 فیصد اور ڈیزل کے مقابلے میں 55 فیصد سستا ماحول دوست فیول فوری طور پر مہیا کرسکتی ہے۔

نیوز 360 سے خصوصی بات چیت میں  انہوں نے کہا کہ اس وقت تیل کی قیمتیں تاریخی سطح پر بلند ہیں اور سی این جی سیکٹر عوام کو فوری طور پر ریلیف مہیا کرسکتا ہے کیونکہ اس وقت پورے ملک میں سی این جی سٹیشن قائم ہیں ،گاڑیوں کے اندر سی این جی کٹس لگی ہوئی ہیں بلکہ سستے فیول کی دستیابی کےلئے تمام انفراسٹرکچر دستیاب ہے۔ اسوقت حکومت کو سی این جی سیکٹر کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام کو سستا فیول اسانی سے دستیاب ہوسکے۔

غیاث پراچہ نے   دعویٰ کیا کہ  اگر سی این جی سیکٹر کو گیس خریدنے میں حکومت سہولت مہیا کرے تو فیول امپورٹ بل کی مد میں سالانہ 2.1ارب ڈالراور گردشی قرضہ کو ایک سال کے اندر 1500ارب روپے تک کم کیا جاسکتا ہے جبکہ گیس کی دستیابی سے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں فوری طور پر 50 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سی این جی انڈسٹری ہر فورم پر اپنے تمام دعوے سچے ثابت کرسکتی ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ انھیں کاروبار کرنے کےمناسب مواقع دستیاب ہوں جبکہ گردشی قرضہ کو سالانہ 1500 ارب روپے تک کم کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس انڈسٹری کو ضرورت کے مطابق گیس مہیا کی جائے اور کاروبار کرنے کے مناسب مواقع فراہم کئے جائیں۔

انہوں نےمزید کہا کہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ری گیسیفائیڈ ایل این جی(آر ایل این جی) صرف ان سیکٹرز کو مہیا کی جارہی ہے جو اربوں روپے کی سب سڈی بھی وصول کررہے ہیں مگر وہ وقت پر اس گیس کی قیمت قومی خزانے میں جمع بھی نہیں کراتے جبکہ سی این جی سیکٹر جو کہ مقامی لوگوں کی عمر بھر کی تین سوپچاس ارب (350 ارب) کی کمائی سے قائم کیا گیا ہے وہ کسی بھی قسم کی کوئی سب سڈی وصول کئےبغیر  ہمییشہ گیس کی پوری پوری قیمت وقت پر ادا کرتا ہے۔

غیاث پراچہ نے کہا کہ اس وقت سی این  جی سیکٹر حکومت سے 13ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سے 20 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پرگیس حاصل کررہی ہے جبکہ حکومت دوسرے سیکٹرز/شعبوں کو یہ گیس 3ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سے 8ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر مہیا کررہی ہے لہذا حکومت کوچاہیئے کہ وہ پالیسی وضع کرتے ہوئے ایسا فیصلہ کرے کہ گردشی قرضہ جو اس وقت 2 کھرب سے بڑھ چکا ہے اس کا بوجھ قومی خزانے پر کم ہوسکے اور حکومت مہنگائی کی ستائی عوام کو عالمی مارکیٹ میں تیل کی روزبروزبڑھتی ہوئی قیمتوں کے منفی اثرات سے بچانے کے لئے بروقت صحیح فیصلے کرے تاکہ عوام کو ہر پندرہ دن کے بعد تیل کی قیمتوں میں بھاری اضافے کے اثرات سے محفوظ رکھا جاسکے۔

 سی این جی ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا ہے کہ حکومت فیول امپورٹ بل کی مد سالانہ دو اعشاریہ ایک ارب ڈالر($2.1 ارب ڈالر) کے زرمبادلہ کے ذخائر کی بچت کرسکتی ہے اگر پرائیویٹ سیکٹر کو سی این جی سیکٹر کی گیس کی ضرورت کو پورا کرنے کےلئے بیرون ملک سے ایل این جی درآمد کرنے کی اجازت دی جائے جبکہ سی این جی سیکٹر کو گیس کی مسلسل فراہمی سے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں پچاس فیصد سے زیادہ کمی کرکے مہنگائی کی ستائی عوام کو فوری ریلیف بھی مہیا کیا جاسکتا ہے۔

متعلقہ تحاریر