ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا، ڈی جی آئی ایس آئی
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا ہے ہمارے ادارے کو بلاجواز جھوٹ کی بنیاد پر تضحیک اور تذلیل کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو بحیثیت سربراہ کے میں خاموش نہیں رہ سکتا۔
ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم کا کہنا ہے میرا منصب اور میری ایجنسی کا منصب اس بات کا متقاضی ہے ہمیں پس منظر میں رہنا ہے۔ لیکن آج میں اپنی ذات کے لیے میڈیا کے سامنے نہیں آیا ، بلکہ اپنے ادارے کے لیے آیا ہوں جس کے جوان ، جس کے آفیسرز صبح شام اس وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کے نظرانے پیش کرتے رہتے ہیں۔ اور خصوصی طور پر میں اپنی ایجنسی کے لیے آیا ہوں جس کے ایجنٹس اور آفیسرز پوری دنیا اور پاکستان کے اندر دفاعی لائن بن کر 24 گھنٹے جاگ کر اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ جب انہیں بلاجواز جھوٹ کی بنیاد پر تضحیک اور تذلیل کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو بحیثیت سربراہ کے میں خاموش نہیں رہ سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ جب جھوٹ اتنی آسانی اور فروانی سے بولا جائے ، ایک سائیڈ سے کہ ملک میں فتنہ اور فساد کا خطرہ ہو ، تو سچ کی لمبی خاموشی بھی ٹھیک نہیں ہے۔ میں کوشش کروں کا بلاضرورت سچ نہ بولوں۔ قوم نے میرے کندھوں پر یہ بوجھ ڈالا ہے کہ میں ان رازوں کو جو میرے پاس ہیں ، ان امانتوں کو اپنے سینے میں لےکر قبر میں چلا جاؤں۔ لیکن جہاں ضرورت ہو گی میں وہ راز آپ کے سامنے ضرور رکھوں گا، تاکہ میں اپنے جوانوں ، اپنے اداروں اور اپنے شہداء کو دفاع کرسکوں۔ آپ نے دیکھا لسبیلہ میں ہمارے کور کمانڈر صاحب اور جوان آفیسر شہید ہوئے ، اس مٹی کے خاطر انہوں نے جان دی۔ لیکن اس کا بھی مذاق بنایا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
فیصل واوڈا کی خونی لانگ مارچ کی پیشگوئی اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی حکمت عملی
ارشد شریف کا سینیٹ کمیٹی کو ریکارڈ کرایاگیا وڈیو بیان جاری کیا جائے، افتخار درانی
آپ نے جو پہلا سوال پوچھا ہے کہ میر صادق ، میر جعفر اور غدار کے کیا پس منظر ہیں۔؟ سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا تھا اس میں دو رائے نہیں ہے ، کہ آپ کسی کو میر جعفر کہیں ، میر صادق کہیں ، آپ کے پاس کوئی شواہد نہ ہوں ، تو ظاہری بات ہے کہ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ بالکل 100 فیصد جھوٹ پر بنایا گیا نظریہ ہے۔ لیکن آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ نظریہ بنایا کیوں گیا ہے۔ میر جعفر ، میر صادق ، نیوٹرل اور جانور کہنا ہے اس لیے نہیں ہے کہ میرے ادارے نے ، میری ایجنسی نے یا آرمی چیف نے غداری کی ہے۔ یہ اس لیے بھی نہیں ہے کہ انہوں نے کوئی غیرآئینی اور غیرقانونی کام کیا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے اور ان کے ادارے نے غیرآئینی اور غیرقانونی کام کرنے سے انکار کردیا۔ پچھلے اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے آپ کو اپنے آئینی کردار تک محدود رکھنا ہے۔ یہ فرد واحد کا فیصلہ نہیں تھا۔ ادارے کے اندر اس بات پر بہت بحث ہوئی۔ اور ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ ہم اپنے آپ کو آئینی کردار تک محدود کردیں۔ سیاست سےباہر نکل جائیں۔ میرا ایمان ہے کہ میری ایجنسی ہو، میرا ادارہ ہو پاکستان کے ہر فرد کا ، اس کے کوئی بھی سیاسی سوچ ہو ، افکار ہو ، اس کا مساوی حق ہونا چاہیے۔ اسے کسی ایک گروہ یا شخص کے ساتھ منسلک نہیں ہونا چاہیے۔ یہی اس ادارے کی شان ہے یہی اس ادارے کی آن ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا تھا رواں سال مارچ میں مختلف طریقوں سے ہم پر پریشر ڈالا گیا ، لیکن ادارے نے اور آرمی چیف نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم نے جو بنیادی فیصلہ کیا ہوا ہے اس پر قائم رہیں گے ، اور ہم اس سے نہیں ہٹے۔
ان کا کہنا تھا جہاں تک میں آرمی چیف صاحب کو جانتا ہوں وہ چاہتے ہیں کہ جو وہ اس ادارے سے رخصت ہوں تو یہ ادارہ اپنے آئینی رول پر کھڑا ہو۔ ایسا رول ہو جس کو متنازعہ نہ بنایا جاسکے۔ میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں آرمی چیف کو مارچ کے مہینے میں ان کی مدت ملازمت میں غیرمعینہ مدت کی پیش کش بھی کی تھی۔ یہ بہت پرکشش پیش کش تھی لیکن انہوں نے اسے بھی ٹھکرا دیا۔
ڈی جی آئی ایس آئی کا کہنا تھا اگر آپ کو یقین تھا کہ آرمی چیف میر صادق تھا اور میر جعفر تھا تو ماضی قریب میں آپ ان کی تعریفوں کے پل کیوں باندھتے تھے۔ عجیب بات ہے کہ ایک جانب آپ انہیں میر جعفر بھی سمجھتے ہیں اور دوسری جانب آپ ان کو غیرمعینہ مدت کے لے ملازمت میں توسیع دے رہے تھے۔ اگر وہ غدار ہیں تو پھر آپ ان سے پس پردہ کیوں ملتے ہیں، مجھے آپ کے ملنے پر اعتراض نہیں ہے ، رات کے اندھیرے میں آپ اچھی اور بری خواہشات کا اظہار کریں اور دن کی روشنی میں آپ اسے بندے کو غدار کہیں۔ آپ کے قول و فیل میں اتنا بڑا تضاد درست نہیں۔
سینئر اینکر کامران شاہد کے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہم ایک ادارے کے انڈر کام کرتے ہیں ، جو اختیارات ہمارے پاس ہیں ہم ان کو استعمال کرتے ہیں۔ اگر کوئی فوج پر انگلی اٹھا رہا ہے تو جو گورنمنٹ ہے اس کو دیکھنا ہے کہ اس کے خلاف کیسے ایکشن لینا ہے۔ کسی کو گرفتار کرنا گورنمنٹ کی صوابدید ہے ہماری نہیں۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں گورنمنٹ کی ہدایت کی روشنی میں کرتے ہیں۔
فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس سے متعلق سوال پر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا ہم تمام چیزوں کا موازنہ کررہے ہیں ، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اس کیس کی غیرجانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کی جائیں۔ اگر یہ کیس اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچا تو بہت بڑا نقصان ہوگا۔ فیصل واوڈا نے جو باتیں کی ہیں انکوائری کمیشن اسے ضرور دیکھے گا۔
ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم کا کہنا تھا میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ شہید ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ان کے خاندان میں غازی بھی ہیں اور شہید بھی ہیں ، اس لیے ان کے اسٹیبلشمنٹ سے بہت قریبی تعلقات تھے۔ کینیا میں ، میں میرے ہم منصب سے رابطے ہوں ، ان کا کہنا تھا شناخت کی غلطی کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔ ہم اور حکومت اس جواب سے مطمئن نہیں ہیں اس لیے حکومت نے ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو تحقیقات کے لیے کینیا جائے گی۔ حکومت نے جوڈیشل کمیشن بھی تشکیل دیا ہے ، تاہم میں نے جانتے بوجھتے آئی ایس آئی کے دونوں ارکان کو کمیشن سے الگ کرلیا ہے تاکہ ہم پر کسی قسم کی جانب داری کو الزام نہ آئے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا فوج کے خلاف جو بھی مختلف ٹرمینالوجی استعمال کی گئیں ، اور جس بیانیے کو پروان چڑھایا گیا اس کے ظاہری عوامل سے متعلق میں نے آپ کو بریف کردیا ہے۔ اس کے اندرونی محرکات کیا ہیں اور چیزیں کس ڈائریکشن میں جارہی ہیں ، ان کو دیکھنا ہے۔