اوور بلنگ کا معاملہ ، قائمہ کمیٹی کا کے الیکٹرک کے خلاف انکوائری کا حکم
سینیٹ کی قائمہ برائے پاور کے چیئرمین کمیٹی سیف اللہ ابڑو کا کہنا ہے 2008-21 تک گردشی قرضے 292 ارب روپے تھے کہ صرف 14 مہینوں میں گردشی قرضے 175 ارب روپے کیسے بڑھے تحقیقات ہوں گی۔
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور نے اوور بلنگ پر کے الیکٹرک کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا ، کمیٹی کا کہنا ہے سرکلر ڈیٹ بڑھنے کی تحقیقات بھی ہوں گی۔
2008 سے 2021 تک کے الیکٹرک کا گردشی قرض 292 ارب روپے تھا، اب جون 2021 سے اب تک چودہ ماہ میں کے الیکٹرک کا گردشی قرض 175 ارب کیسے بڑھا۔
سینیٹ کی قائمہ برائے پاور کے چیئرمین کمیٹی سیف اللہ ابڑو نے کے الیکٹرک سے گردشی قرض بارے تمام تفصیلات طلب کر لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سال میں کے الیکٹرک کے حکومت کی طرف کھربوں روپے کیسے بڑھ گئے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کے الیکٹرک نے اربوں روپے کی اووبلنگ کی ہوگی۔ ملک کے ساتھ اور عوام کے ساتھ اتنا کھلواڑ کیوں ہوا۔
یہ بھی پڑھیے
مہنگے قرضے ری شیڈول سستے قرضوں کی واپسی ، پاکستانی معیشت بھنور میں پھنس گئی
تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں اضافے کے باعث سیمنٹ کی فروخت میں18 فیصد کمی
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر غلطی ثابت ہوئی تو معاملہ نیب یا ایف آئی اے کو بھیجیں گے۔ چیئرمین کمیٹی نے سیکرٹری پاور کو انکوائری کی ہدایت کر دی۔
اجلاس میں سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی نے کہا کہ ہمارے موقف کے مطابق ہم نے 475 ارب روپے وصول کرنے ہیں۔ ہم نے حکومت کے 397 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ اس طرح حکومت نے ہمیں 78.3 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔
اس پر سیکریٹری پاور ارشد لنگڑیال نے کہا کہ اس پر حکومت کو اعتراض ہے ہمارے خیال سے ہمیں 75 ارب لینے ہیں۔ جس پر کے الیکٹرک سی ای او نے کہا کہ ہم نے اس پر عالمی ثالثی عدالت میں معاملہ لے جانے کا کہا ہے۔ حکومت تیار نہیں کیونکہ وہاں یہ مقدمہ ہار جائیں گے۔
سیکرٹری پاور نے کہا کہ ماہانہ کے الیکٹرک کو 46 فیصد بجلی فراہم کر ریے ہیں جس کا بل ادا نہیں کیا جا رہا۔ ہمارے موقف ہے کہ ہم نے کے الیکٹرک سے 457 ارب روپے لینا ہے اور 408 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ ہمارا رقم کا مسئلہ نہیں ہے اصل مسئلہ سود کا یے جو 117 ارب روپے ہے۔
کے الیکٹرک سی ای او نے بتایا کہ واجبات میں ہم نے سود شامل نہیں کیا۔ جس پر کمیٹی چیئرمین نے کے الیکٹرک سی ای او کو آڑھے ہاتھوں لے لیا اور کہا کہ آپ پہلے بات کو مکمل ہونے دیں پھر بولیں۔
چیئرمین کمیٹی نے سی ای او کے الیکٹرک کو بات کرنے سے روک دیا۔
اجلاس میں کے الیکٹرک اور پاور ڈویژن کے واجبات کی تفصیلات پر تضادات پایا گیا۔ سیکرٹری پاور نے کہا کہ کے الیکٹرک نے ہمارے 457 ارب روپے دینے ہے، پاور ڈویژن نے 408 ارب کے الیکٹرک کو دینے ہیں۔ 117 ارب روپے اس میں انٹرسٹ ہے جو کے الیکٹرک نے دینے ہیں۔
کے الیکٹرک حکام کا موقف تھا کہ حکومت پاکستان نے 475 ارب روپے دینے ہیں، حکومت کو ہم نے 396 ارب روپے دینے ہیں، سی ای او نے کہا اگر ہم حکومت کو ادائیگیاں کرے تو بھی حکومت نے 78.3 ارب روپے دینے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ سال 2008 میں گردشی قرضے کا معاملہ شروع ہوا تھا۔ کے الیکٹرک حکام نے کہا کہ 2008 میں 16 ارب حکومت سے لینے تھے اور 28 ارب ہم نے دینے تھے۔
کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ 2008 میں 12 ارب آپ نے کیوں نہیں دیے۔ جس پر کے الیکٹرک حکام نے بتایا کہ اس وقت کی ای سی سی نے اقساط میں رقم ادا کرنے کی مہلت کا فیصلہ کیا تھا۔