فرانس کی اپنی مصنوعات کا بائیکاٹ ختم کرنے کی اپیل

فرانس کے صدر کے بیان کے بعد عمران خان نے مسلمان ممالک کے رہنماؤں میں پہل کرتے ہوئے فیس بُک کے بانی کو اسلامو فوبک مواد ہٹانے کے لیے خط لکھا ہے

فرانسیسی صدر ایمینویل میکخواں نے مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ ختم کر دیں۔
مشرق وسطیٰ خلیجی ممالک بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں فرانسیسی صدر کے حالیہ بیان کے بعد بے چینی اور اضطراب کی سی کیفیت پائی جاتی ہے اور احتجاجاً فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ عرب ممالک میں بڑی تعداد میں اسٹورز سے فرانسیسی مصنوعات کو ہٹا رہے ہیں تاکہ کوئی اُنھیں خرید نا پائے۔

فرانسیسی صدر ایمینویل میکخواں نے حال ہی میں مسلمانوں کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے شائع کرنے کا دفاع کرتے ہوئے دینِ اسلام کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ’بحران کا مذہب‘ بن گیا ہے۔ فرانسیسی صدر نے کا کہنا تھا کہ اُن کی حکومت رواں برس دسمبر میں مذہب اور ریاست کو الگ کرنے والے سنہ 1905ء کے قوانین کو مزید مضبوط بنائے گی۔

اِس بیان کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔ پاکستان میں بھی گذشتہ 48 گھنٹوں سے فرانس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کا ٹرینڈ ٹاپ پر ہے۔ مختلف ممالک میں اِس بیان پر احتجاج بھی کیا گیا ہے۔ ترکی نے فرانس سے اپنا سفیر احتجاجاً واپس بلا لیا ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے فرانسیسی صدر میکخواں کو اُن کے دماغ کا علاج کرانے کا مشورہ دیا ہے۔ جواباً فرانس نے بھی ترکی سے اپنا سفیر واپس بُلا لیا ہے۔ اس طرح فی الحال دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں تعطل آیا ہوا ہے۔

دراصل فرانسیسی صدر نے یہ بیان اُس واقعے کے بعد دیا تھا جس میں ایک جماعت میں استاد نے طلبہ کو مسلمانوں کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متنازع خاکے دکھائے تھے جس پر طلبہ نے اُنھیں مشتعل ہوکر قتل کر دیا تھا۔

صدر میکخواں نے کہا تھا کہ سیمیول پیٹی نامی استاد ”اس لیے قتل کیے گئے کیونکہ اسلام پسند افراد کو ہمارے مستقبل پر قبضہ کرنا ہے لیکن فرانس اپنے کارٹونز واپس نہیں لے گا۔‘‘

فرانس میں ریاستی سیکولرازم ملک کی قومی شناخت میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے جبکہ ریاست کا کہنا ہے کہ کسی ایک برادری کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اظہارِ آزادی رائے پر قدغن لگانا ملکی اتحاد کو کمزور کر سکتا ہے۔

فرانس کی وزاتِ خارجہ نے اس تناظر میں ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اُنھوں نے کہا ہے کہ بائیکاٹ کے احکامات بے بنیاد ہیں اور انھیں جلد ازجلد روکا جائے۔ اُس ہی بیان میں ایہ بھی کہا گیا ہے کہ فرانس کے خلاف تمام حملے فوراً روکے جائیں جو ایک شدت پسند اقلیت کر رہی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اِن حملوں کے اعلانات اور احکامات انٹرنیٹ کے ذریعے بھی پھیلائے جا رہے ہیں۔

اُدھر پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان نے اِس معاملے میں عالمی رہنماؤں میں پہل کرتے ہوئے فیس بُک کے بانی ماک زکر برگ کو ایک خط لکھا ہے جس میں اُن سے کہا گیا ہے کہ وہ فیس بُک سے اسلام مخالف مواد ہٹائیں اور ایسا اسلاموفوبک مواد شائع کرنے پر پابندی عائد کریں۔

عمران خان کا یہ خط ایک ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب فرانس کے صدر ایمانوئیل میکخواں مسلمانوں سے متعلق اپنے ایک بیان پر تنقید کی زد میں ہیں۔ عمران خان کے مطابق میکخواں نے اسلاموفوبیا کو فروغ دینے کا انتخاب کیا ہے۔

اِس خط کے جواب میں فیس بُک یا مرک زکر برگ نے تاحال کوئی بیان نہیں دیا ہے۔

عمران خان نے فیس بک کے سی ای او کو متنبہ کیا کہ ایسے اقدام لینے کے لیے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی طرح باقی دنیا میں مسلمانوں کے قتلِ عام کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔

متعلقہ تحاریر