حکومت بچانے کے لیے اسپیکر کو پی ٹی آئی کے تمام استعفے منظور کرنا ہوں گے
اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کی جانب سے قومی اسمبلی میں واپسی کے اعلان کے فوری بعد تحریک انصاف 35 ارکان کے استعفے منظور کرلیے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی عدم اعتماد لانے کی دھمکی ، وفاقی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ، جلد بازی میں تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ کے 35 ایم این ایز کے استعفے منظور کرلیے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت بچانے کے لیے اسپیکر کو پی ٹی آئی کے تمام اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کرنا ہوں گے۔
حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اقتدار کی جنگ فیصلہ کن مرحلے کی جانب گامزن ہے ، اسی دوران منگل کی رات اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے 35 ارکان کے استعفے منظور کر لیے۔ جن اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے ان میں عمران خان کی قیادت والی پاکستان تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ کے اراکین شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کیا میاں نواز شریف نے وزیراعظم شہباز شریف کو تنہا چھوڑ دیا؟
اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے استعفوں کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے مستعفی ہونے والے ایم این ایز کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔
ڈی نوٹیفائیڈ ہونے والے ایم این ایز مراد سعید، عمر ایوب خان، اسد قیصر، پرویز خٹک، عمران خٹک، شہریار آفریدی، آل امین خان، نورالحق قادری، راجہ خرم شہزاد نواز، علی نواز اعوان، اسد عمر، صداقت علی خان، غلام عباس ، سرور خان، شیخ راشد شفیق، منصور حیات خان، فواد احمد، ثناء اللہ خان مستی خیل، حماد اظہر، شفقت محمود، ملک محمد عامر ڈوگر، شاہ محمود قریشی، زرتاج گل، فہیم خان، سیف الرحمان، محمد عالمگیر خان، سید علی حیدر زیدی، آفتاب حسین صدیق، عطاء اللہ، آفتاب جہانگیر، محمد اسلم خان، محمد نجیب ہارون اور قاسم خان سوری شامل ہیں۔
اسی طرح سے مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے پی ٹی آئی کے دو اراکین اسمبلی عالیہ حمزہ ملک اور کنول شوزب کو بھی ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے 34 قانون سازوں کے ساتھ ساتھ ای سی پی نے عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ شیخ رشید احمد بھی ڈی نوٹیفائی کر دیا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے پی ٹی آئی اور عوام مسلم لیگ کے استعفے منظور کرنے کا اقدام اس وقت سامنے آیا جب دو روز چیئرمین تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ دیا تھا۔
رہنما تحریک انصاف فواد چوہدری نے اسپیکر قومی اسمبلی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "ہمارے استعفیٰ قبول کرنے کا شکریہ ، لیکن جب تک آپ 70 اور استعفیٰ قبول نہیں کرتے لیڈر آف اپوزیشن اور پارلیمانی پارٹی کے عہدے تحریک انصاف کے پاس ہی آنے ہیں اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بھی تحریک انصاف کا حق ہے، امید ہے چیف جسٹس سپریم کورٹ اس ضمن میں ہمارے زیر التواء کیس میں فیصلہ دیں گے۔”
ہمارے استعفیٰ قبول کرنے کا شکریہ لیکن جب تک آپ 70 اور استعفیٰ قبول نہیں کرتے لیڈر آف اپوزیشن اور پارلیمانی پارٹی کے عہدے تحریک انصاف کے پاس ہی آنے ہیں اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بھی تحریک انصاف کا حق ہے، امید ہے چیف جسٹس سپریم کورٹ اس ضمن میں ہمارے زیر التواء کیس میں فیصلہ دیں گے
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) January 17, 2023
تاہم تجزیہ کاروں نے وفاقی حکومت کے اس اقدام کو اپنے پاؤں پر کلہاڑی کے مترادف قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے تحریک انصاف اسمبلی میں اس لیے واپس آرہی تھی کہ لیڈر آف اپوزیشن کو تبدیل کیا جاسکے۔ کیونکہ راجہ ریاض بطور اپوزیشن لیڈر کسی کٹھ پتلی قائد حزب اختلاف سے کم نہیں ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ 35 ارکان کے استعفے منظور کرنے سے فرق نہیں پڑے گا کیونکہ پی ٹی آئی کے 70 اراکین اسمبلی کے استعفے ابھی تک اسپیکر کے پاس پڑے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی اس صورتحال میں اسمبلی میں واپس آسکتی ہے اور راجہ ریاض کو قائد حزب اختلاف کے عہدے سے ہٹا سکتی ہے۔ اگر راجہ ریاض کو لیڈر آف اپوزیشن برقرار رکھنا ہے تو اسپیکر کو باقی 70 ارکان کے استعفے بھی منظور کرنا ہوں گے۔ ورنہ تحریک انصاف اگر اسمبلی میں واپس آتی ہے تو تین بڑے عہدے اس کے پاس واپس آجائیں گے، جن میں لیڈر آف اپوزیشن ، چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور پارلیمانی پارٹی کے عہدے شامل ہیں۔