معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے سوشل میڈیا کا مثبت استعال وقت کی ضرورت ہے، ڈاکٹر طلحہ کشمیری

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے زیرانتظام "پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا" کے حوالے سے مکالمے کا اہتمام۔

اسلام آباد: بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں "پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا: چیلنجز، مواقع اور عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی مضبوطی” کے موضوع پر مکالمے کا اہتمام کیا گیا ، جس کے شرکاء نے عرب ممالک میں پاکستان کی حقیقی تصویر پیش کرنے کے لیے خبروں اور ڈیجیٹل میڈیا کو مدنظر رکھتے ہوئے عربی زبان کا ایک مستند پلیٹ فارم قائم کرنے پر زور دیا ہے۔

یونیورسٹی کے فیصل مسجد کیمپس میں اس مکالمے کا اہتمام اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ پروٹوکول اینڈ پبلک ریلیشنز اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف عریبک نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔

شرکاء نے تعلیمی اداروں پر زور دیا کہ وہ ڈیجیٹل میڈیا کے ماہرین کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے استعمال سے آگاہ کیا جا سکے۔

یہ بھی تجویز کیا گیا کہ قانون ساز حلقوں پر زور دیا جانا چاہیے کہ وہ خبروں اور ڈیجیٹل میڈیا کے لیے عربی زبان کا ایک سرکاری پلیٹ فارم قائم کریں۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف عربی کے سربراہ ڈاکٹر طلحہ کشمیری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا کے منظر نامے پر پولرائزیشن میں اضافہ تشویشناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ہٹ دھرمی نے اختلاف رائے کی اخلاقیات کو نگل لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ متوازن سوچ رکھنے والے لوگ آگے آئیں اور نفرت انگیز مواد ،  تشدد پسندانہ سوچ اور غیر یقینی کی صورتحال کے تدارک کے لیے حقائق کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ڈاکٹر طلحہ نے غیر ملکی خبر رساں اداروں پر انحصار کرنے کی بجائے درست اور حقائق پر مبنی خبروں کے بہاؤ کو منظم کرنے کے لیے پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان پل بننے کے طور پر ایک سرکاری پلیٹ فارم  کے قیام پر زور دیا۔

انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان اور عرب ممالک کو اس سلسلے میں تعاون کرنا چاہیے اور باہمی تعاون کے ذریعے ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا چاہیے۔

سینئر صحافی اور ڈیجیٹل میڈیا کے ماہر نے اس موقع پر کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا کے پروپیگنڈے کو جاننا اور اس سے مثبت انداز میں نمٹنا ایک فن ہے۔

انہوں نے ‘ مس انفارمیشن’ ، ‘ ڈس انفارمیشن’ اور ‘ فیک نیوز’ کی اصطلاحات کو بھی واضح کیا۔ انہوں نے شرکا کو ہتک آمیز مواد  کے تدارک اور اسے نمٹنے کی حکمت عملی کے حوالے سے بھی آگاہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کی ترجیحات کو جاننے کی ضرورت ہے تاکہ ان  ترجیحات کو اپنایا جا سکے جو ہماری اقدار کے مطابق بھی قابل قبول ہو سکتی ہیں۔

انہوں نے پاکستان کی ترقی میں عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے کردار پر بھی زور دیا۔ انہوں نے اپنے تجربات اور معاشرے میں مثبت سوشل میڈیا مہمات کے نتائج  بھی بتائے۔

اس موقع پر اپنے تاثرات میں انچارج پروٹوکول اینڈ پبلک ریلیشنز ناصر فرید نے کہا کہ اکیڈمیا اور سینئر ڈیجیٹل میڈیا ماہرین کو پاکستان کی امیج بلڈنگ کے مقصد کے لیے کام کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عرب دنیا اور پاکستان کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور پاکستان کے عرب ممالک کے ساتھ مثالی تعلقات ہیں  لیکن چند عناصر ایسے ہیں جو ڈیجیٹل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے کے ذریعے ان تعلقات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے سوشل میڈیا اخلاقیات کو فروغ دینے اور ڈیجیٹل میڈیا پر منفی عناصر سے نمٹنے کے لیے پالیسی بنانے پر زور دیا۔

عربی زبان کے سینئر صحافی عبدالرحمن حیات، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز الحسن اور محمد نعمان اور یونیورسٹی کے طلباء نے بھی اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

متعلقہ تحاریر