غربت میں اضافہ؛ رفاحی اداروں کے باہر رش مگر حکمران سیاسی داؤ بیچ میں مشغول

دی گارڈین نے ایک اسٹوری میں بتایا کہ پاکستان میں مزید 50 لاکھ پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے گرگئے جبکہ رفاحی ادارے انہیں مدد فراہم کرنے میں سرگرم عمل ہیں مگر سیاسی رہنماؤں نے ان مسائل پر بات کرنا چھوڑ دی ہے

ملک میں بیروز گاری اور مہنگائی کی شرح میں بے تحاشا اضافے نے مزید 50 لاکھ پاکستانیوں کو غریت کی جانب دھکیل دیا ہے جنہیں اشیائے خورونوش کی سخت کمی کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے۔

بین الاقوامی جریدے دی گارڈین نے رپورٹ کیا ہے کہ پاکستان میں رفاعی ادارے لاکھوں افراد کو مفت کھانا کھلاتے ہیں مگر غربت بڑھنے سے وہ بھی شدید مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

عالمی بینک نے پاکستان میں غربت بڑھنے کا شدید خطرہ ظاہر کردیا

گارڈین کی اسٹوری میں غریبوں کو مفت کھانے فراہم کرنے والے ادارے کھانا گھر سے متعلق بتایا گیا ہے کہ کیسے وہ مستحقین کو مفت  کھانا اور اشیائے خور و نوش فراہم کر رہے ہیں۔

کھانا گھر کی روح رواں پروین سعید کے مطابق ضرورت مند زیادہ ہیں جبکہ ہم جتنے افراد کی مدد کرنے کے قابل ہیں اتنی مدد فراہم کرر ہے ہیں۔

شہناز مصطفیٰ نامی  ایک بیوہ خاتون اپنے لیے، پولیو میں مبتلا بیٹی، اور اس کے ننھے پوتے کے لیے کھانا گھر سے کھاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں۔ اگر پروین نہ ہوتی تو ہم بھوک سے مرجاتے۔

گاڈین نے رپورٹ کیا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام نے پیش گوئی کی ہے کہ اگلے ہفتے تک 5.1 ملین پاکستانیوں کو شدید بھوک کا سامنا کرنا پڑے گا جوکہ گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں 1.1 ملین زیادہ ہے۔

اخباری مضمون میں بتایا گیا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مفت کھانا فراہم کرنے والے اداروں کے باہر لمبی قطاریں لگنے لگی ہیں، احمد ایدھی نے گارڈین کو بتایا کہ 40 سال سے زائد عرصے سے مفت کھانا فراہم کر رہے ہیں، اب تو خوش لباس افراد بھی مفت کھانے کے حصول کے لیے آنے لگ گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ٹنڈو الہٰیار میں غربت ومہنگائی کے ستائے والدین کی خودکشی ،5 بچے یتیم ہوگئے

گارڈین نے رپورٹ کیا کہ وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے رمضان المبارک کے دوران 7.8 ملین خاندانوں کے لیے 15.6 بلین روپے  کے امدادی پیکج کی منظوری دی جس سے فی مستحق خاندانوں کو 2,000 روپے ملیں گے۔

مضمون میں کہا گیا ہےکہ پاکستان کے سیاسی بحران نے ایسے روزمرہ کے مسائل سے توجہ ہٹا دی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ سیاسی حلقوں میں اس بارے میں کوئی بات چیت یا بحث نہیں ہے کہ یومیہ مزدوری کرنے والا ایک ایسے وقت میں اپنے خاندان کا پیٹ کیسے پال رہا ہے۔

متعلقہ تحاریر