جسٹس فائز عیسیٰ کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت اپنے برادر ججز کے لیے منفی پیغام

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ایسے نازک موقع پر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی بدترین مثال کیا ہوسکتی ہے۔

دستورِ پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہمیں آئین پاکستان کی اہمیت کو پہچاننا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے، تاہم تجزیہ کاروں نے جسٹس عیسیٰ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یقیناً آئین کی گولڈن جوبلی منانے کے اس سے بہتر طریقے بھی ہوسکتے تھے ، ایسے نازک موقع پر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی بدترین مثال کیا ہوسکتی ہے۔

دستورِ پاکستان کے 50 سال مکمل ہونے پر قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں منعقدہ کنونشن میں گفتگو کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں یہاں کوئی سیاسی تقریر کرنے حاضر نہیں ہوا بلکہ میں اپنے اور اپنے ادارے کی طرف سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، اللہ کے سائے کے بعد اس کتاب کا سایہ ہمارے سر پر ہے، ہمیں آئین پاکستان کی اہمیت کو پہچاننا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔

ایوان کے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ سب کا سیاسی میدان ہے لیکن میں قانونی نقطہ نظر سے چیزوں کو دیکھتا ہوں، آپ ہم پر تبصرے اور تنقید کرسکتے ہیں، ہم نے تنقید سنی بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا اور آپ کا یعنی پارلیمان کا واحد مقصد لوگوں کی خدمت کرنا ہونا چاہئیں، ہمارا کام یہ ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق جلد فیصلے کریں، آپ کا کام ہے کہ ایسے قوانین بنائیں جو لوگوں کے لیے بہتر ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہاں آج بہت سی سیاسی باتیں بھی ہوگئیں جبکہ میں نے آنے سے پہلے پوچھا تھا کہ یہاں کوئی سیاسی باتیں تو نہیں ہوں گی، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں آج یہاں ہونے والی تمام باتوں سے اتفاق کرتا ہوں، آج آئین کے گولڈن جوبلی تھی، میں صرف اس کے جشن میں شرکت کے لیے آیا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی تحریک کے نتیجے میں پاکستان کی صورت میں مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک وجود میں آیا لیکن بدقسمتی سے اب ہم سے یہ شرف چھن گیا اور اب یہ شرف انڈونیشیا کے پاس ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم (غیرمسلموں کے لیے) ’اقلیت‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، مجھے یہ پسند نہیں ہے، وہ برابر کے شہری ہیں اور ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں آپ سب کے لیے ایک سوال چھوڑ رہا ہوں کہ اگر ہم اپنے آپ کو ماضی میں جج مولوی تمیزالدین اور ان ججز کی جگہ کھڑا کرکے سوچیں جنہوں نے اسمبلی کو بحال کیا تو پاکستان 2 ٹکڑے ہوتا؟

انہوں نے کہا کہ یہ بہت اچھی بات ہے کہ وزیراعظم نے 10 اپریل کو دستور کا قومی دن قرار دے دیا، میری چچی بھی اُس وقت اِس ایوان کا حصہ تھیں جب یہ آئین پیش کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس آئین میں لوگوں کے حقوق کا تذکرہ ہے، لوگوں کے بنیادی حقوق اس آئین کا سب سے اہم ترین حصہ ہیں، آئین کو اسکولوں میں پڑھانے کی قرارداد خوش آئند ہے، میری اہلیہ ایک امریکن اسکول میں ٹیچر تھیں جہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کو امریکا کا آئین پڑھایا جاتا اور اس حوالے سے مشقیں کروائی جاتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ جب لوگ ووٹ اور آئین کا مطلب سمجھ جائیں گے تو ان کو اندازہ ہوگا کہ اس ریاست کی لگام ہمارے ہاتھ میں ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس آئین میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کے آئین میں نہیں ہیں، مثلا آرٹیکل 10 اے کے تحت رائٹ آف انفارمیشن (معلومات کا حق)، آرٹیکل 19 کے تحت فریڈم آف پریس (آزادی صحافت) بھی ہمارے آئین ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنے ادارے کی جانب سے کہنا چاہوں گا کہ ہم بھی آئین کے محافظ ہیں، آپ سب نے اور میں نے بھی یہ حلف لیا ہے کہ ہم ہر قیمت پر آئین کا تحفظ اور دفاع کریں گے، اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو آپ مجھ پر ہر قسم کی تنقید کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں دوبارہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں آج جو سیاسی باتیں کی گئٰیں ان سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے، ہوسکتا ہے کل کو آپ میں سے کوئی یہ کہے کہ ہم نے آپ کو بلایا اور آپ نے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا.

متعلقہ تحاریر