میمو گیٹ اسکینڈل کے اہم کردار پارلیمان کی چھت تلے ایک ساتھ بیٹھ گئے
آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کے تقریب کے موقع پر سابق صدر آصف علی زردای اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پارلیمنٹ میں برابر برابر بیٹھ گئے ، جسٹس عیسیٰ نے میمو گیٹ اسکینڈل میں زرداری کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔
دستور پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پارلیمنٹ میں سابق صدر آصف علی زرداری کی نشست پر تشریف فرما نظر آئے، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ یہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تھے جنہوں نے میمو گیٹ اسکینڈل ہیڈ کیا تھا ، اور سپریم کورٹ کو رپورٹ دی تھی کہ حسین حقانی نے آصف زرداری کے کہنے پر مائیک مولن کو نوٹ لکھا تھا۔
جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کے دور میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی میمو کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی ملک کے وفادار نہیں ہیں اور انہوں نے امریکی حمایت حاصل کرنے کےلیے میمو گیٹ اسکینڈل تصنیف کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
وزیراعظم اور وفود نے 9 ماہ میں غیر ملکی دوروں پر ایک ارب روپے سے زائد اڑادیے
پی ڈی ایم حکومت نے ایک سال میں چلتے ہوئے ملک کو تباہ کرکے رکھ دیا، عمران خان
سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ حسین حقانی کی جانب سے سابق امریکی فوجی سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کو دیئے گئے متنازع میمو گیٹ سے متعلق آئینی درخواستوں پر سماعت کی تھی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ میں جسٹس میاں شاکر اللہ جان، جسٹس جواد ایس خواجہ، خلجی عارف حسین، طارق پرویز، آصف سعید خان کھوسہ، امیر ہانی مسلم، جسٹس اعجاز احمد چوہدری اور عظمت سعید شامل تھے۔
دوران سماعت حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ نوٹس جاری کیے بغیر سماعت غیرقانونی ہے۔
عدالت نے کیس کے تمام فریقین کو دوبارہ نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ حسین حقانی آئندہ سماعت پر پیش ہوں۔
عدالت نے میمو کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد نے کہا کہ عدالت رپورٹ کا تجزیہ کر کے تعین کرے گی کہ اس میں کیا حقائق بیان کیے گئے ہیں اور ان میں کتنی سچائی ہے۔
کیس میں فریقین کو دوبارہ نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت نے کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی تھی۔
اس سے قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی تحقیقاتی کمیشن نے میمو کمیشن سے متعلق اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ میمو واقعی حقیقی ہے اور سابق سفیر کی طرف سے لکھا گیا تھا۔
معروف صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے میمو گیٹ کی حقیقت سے متعلق اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر لکھا تھا کہ "سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) شجاع پاشا نے میمو گیٹ اسکینڈل پر آصف علی زرداری سے معافی بھی مانگی تھی، اور کہا تھا کہ میں نے سب جنرل کیانی کے کہنے پر کیا تھا۔”
کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حقانی بھول گئے تھے کہ وہ امریکا میں پاکستان کے سفیر ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھاکہ حسین حقانی نے ملکی آئین کی خلاف ورزی کی۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حسین حقانی جب حکومت پاکستان کی جانب سے دی جانے والی تنخواہ وصول کررہے تھے ، ان کی وفاداریاں پاکستان کے ساتھ نہیں تھیں۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ سابق سفیر نے پاکستان میں نہ رہنے کا فیصلہ کیا ، رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حسین حقانی کی نہ تو ملک میں کوئی جائیداد تھی اور نہ ہی ان کے پاس کوئی بینک بیلنس تھا۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا تھا کہ میمو لکھنے کا مقصد امریکی حکام کو یہ باور کرانا تھا کہ پاکستان کی سویلین حکومت امریکہ دوست ہے اور یہ صرف سویلین سیٹ اپ ہی پاکستان کے جوہری پروگرام کو کنٹرول کر سکتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ میمو کے ذریعے حقانی امریکہ کو نئی سیکیورٹی ٹیم کی تشکیل پر قائل کرنا چاہتے تھے اور وہ خود ٹیم کی سربراہی کرنا چاہتے تھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس دور میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے شجاع پاشا کے ذریعے مینو گیٹ اسکینڈل کھڑا کیا تھا اور فائز عیسیٰ صاحب ان کے مہرے کے طور پر کام کیا تھا۔