سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف چار درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھیں جس پر سماعت کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی ، چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا ہے نئی تاریخ کا اعلان تحریری فیصلے میں کریں گے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ 21 اپریل کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظور کیا گیا بل قانون بن جائے گا، یعنی چیف جسٹس جو بینچ بنائیں گے وہ سپریم کورٹ کے دو سینئر جج کی مشاورت سے بنائیں گے ،مگر سپریم کورٹ نے سماعت شروع کرکے قانون پر یہ قدغن لگا ہے ، چونکہ یہ بینچ قانون بننے سے پہلے بنا تھا اس لیے یہ ٹوٹ نہیں سکتا جب تک کوئی جج اس بینچ خود نکل نہ جائے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف مختلف درخواستوں پر چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سپریم کورٹ نے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے۔ اٹارنی جنرل ، وزیراعظم اور صدر کے پرنسپل سیکریٹریز ، وزارت قانون ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹسز جاری کردیئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
عمران خان کی دو مقدمات میں ویڈیو لنک پر حاضری کی درخواست منظور ، عبوری ضمانت میں ایک روز کی توسیع
دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ ایک اہم مقدمہ ہے جس میں عدلیہ کی آزادی کا نقطہ ہے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف چار درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھیں جس پر سماعت کی گئی تھی۔
ایک درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی کی جانب سے دلائل دیئے۔ ان کا کہنا تھا سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے اس کیس کا سنا جانا پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت نہیں ہے۔ پارلیمنٹ اپنا کام مکمل کرچکی ہے ، صدر نے اس بل کو ری کنسیڈر کرنے کے لیے واپس پارلیمان کو بھیج دیا ہے ، اس کے بعد پارلیمنٹ نے اس بل پر غور نہیں کیا اور جلد بازی میں یہ قانون سازی کی جارہی ہے۔
امتیاز صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں عدلیہ ، مقننہ اور ایگزیکٹیوز کے حوالے سے بہت واضح احکامات ہیں ، ہر ادارے کی اپنی حدود ہیں اور ہر ادارے نے اپنی حدود میں رہنا ہوتا ہے، اداروں کے انٹرنل میٹرز میں دوسرا ادارہ مداخلت نہیں کرسکتا ،
ایڈووکیٹ امتیاز صدیقی کا کہنا تھا پارلیمنٹ سپریم ہے لیکن وہ جو بھی قانون سازی کریں گے آئین کے دائرے کے اندر رہ کرکریں گے۔ آئین سے متصادم کوئی بھی قانون سازی قبول نہیں کی جاسکتی۔
ایڈووکیٹ امتیاز صدیقی کے دلائل کے بعد چیف جسٹس نے سماعت ملتوی کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بینچ تمام ججز کی موجودگی میں سماعت دوبارہ کی جائےگی۔ اور جلد ہی اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔