آئین پاکستان میں سوموٹو کا کہیں ذکر نہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس عیسی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آرٹیکل 184 (3) کا بھرپور استعمال کیا گیا ، جسٹس منیر نے پاکستان توڑنے کا بیج بویا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پاکستان میں 184 (3) کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے ، آئین میں 184 (3) کو سوموٹو کہا جاتا ہے ، آئین میں سوموٹو کا لفظ نہیں ہے ، اور اگر آپ انگلینڈ چلے جائیں تو انہیں بھی نہیں معلوم ہوگا کہ سوموٹو کیا ہوتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے "آئین پاکستان قومی وحدت کی علامت” کے موضوع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخ ہمیں سات بار سبق دے چکی ہے ، تاریخ سے کچھ سیکھو نہیں تو وہ خود کو دہراتی رہتی ہے ، اگر کوئی فیصلہ غلط ہو گیا تو وہ غلط ہی رہتا ہے چاہے سب جج فیصلہ کرلیں۔
یہ بھی پڑھیے
برطانیہ سے کاروبار سمیٹ کر مردان آنے والے عالم زیب کا اسٹور رشوت نہ دینے پر سیل
نگراں وزیراعلیٰ کے پی نے مقتول دیال سنگھ کے ورثاء کو ایک ملین کا امدادی چیک دے دیا
ڈکٹیٹرز کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں ایک ڈکٹیٹر آتا ہے اور پھر کچھ عرصے خود کو دھوکہ دینے لگتا ہے ، دسمبر 1971 میں پاکستان ٹوٹ گیا ، اچانک نہیں ٹوٹا بلکہ بیج بوئے گئے۔ پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا، فیڈرل کورٹ میں جسٹس منیر نے پاکستان توڑنے کا بیج بویا۔ جو بیج بویا گیا اس نے ملک کے دو ٹکڑے کردیئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ 4 جولائی 1977 کو پھر ایک سرکاری ملازم نے جمہوریت اور آئین پر وار کیا۔ 30 دسمبر 1985 کو ملک سے مارشل لاء اٹھا لیا گیا ، اس شخص نے 11 سال حکومت کی ، پھر جہاز حادثے میں اس کا انتقال ہوگیا۔
پرویز مشرف کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ 12 اکتوبر 1999 کو پھر ایک سرکاری ملازم نے سوچا کہ مجھے سے بہتر آدمی ہو ہی نہیں سکتا ، اور اس نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ مشرف نے خود ہی اپنے آپ کو آئینی تحفظ دے دیا ، مشرف نے دوسرا آئین پر وار 3 نومبر 2007 کو کیا۔
قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ازخود نوٹس کسی کو فائدہ دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ازخود نوٹس کا اختیار صرف سپریم کورٹ کو ہے۔ 184 (3) کے تحت ازخود نوٹس لینے کے بعد سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ بن جاتی ہے۔
اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جب سے سپریم کورٹ کا جج بنا ہوں کبھی اپنی پسند اور ناپسند کا اظہار نہیں کیا۔ کبھی کسی بینچ میں بیٹھنے یا نہ بیٹھنے کی سفارش نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کو کبھی اس طرح سے پیش نہیں کیا گیا جس کا وہ مستحق ہے۔ آئین پاکستان قومی وحدت کی علامت ہے۔ تکبر اور انا سب سے بری چیز ہے ، اختلاف سے انا کا کوئی تعلق نہیں ، جس دن مجھ میں انا آگئی اس دن میں جج نہیں رہوں گا۔









